سورج کی کرنیں میرے چہرے پر پڑیں تو میری آنکھ کھل گئی۔ تکئے سے سر اٹھا کر کھڑکی کی طرف دیکھا تو پردہ صبح کی ٹھنڈی ہوا میں جھوم رہا تھا۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کے تحت یہ گھر مجھے چند ماہ قبل ہی ملا تھا۔ کھڑکی سے باہر جھانکا تو ماحول زعفران کے پھولوں کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔
میں دروازہ کھول کر باہر آ گیا۔ مجھے دیکھتے ہی باہر بندھی بھینسوں نے سر ہلا کر میرا استقبال کیا۔ یہ بھینسیں ہمیں وزیراعظم کے پروگرام کے تحت ملی تھیں۔ ان کے کٹوں کو پالنے کے لئے بھی خوراک حکومت فراہم کر رہی تھی۔
میں چلتا ہوا سامنے لگے زیتون کے درختوں کی چھاؤں میں جا بیٹھا۔ درخت پھل سے لدے ہوئے تھے۔ زیتون کی فصل تیار تھی اور ان سے ہزاروں کی آمدن بس چند ہی روز دور تھی۔ میں درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور آنکھیں بند کر لیں۔
سوچا آج ناشتے میں خانصاحب کی دی ہوئی دیسی مرغیوں کے انڈے لسی کے ساتھ کھاؤں گا۔ اچانک پانی کی چھینٹیں میرے بدن پر پڑیں، میرے پیروں کے نیچے زمین ہلنے لگی اور اماں کی کڑک آواز کانوں میں پڑی۔ "او کمبخت کب تک پڑا سوتا رہے گا، چینی کی لائن بڑھتی ہی جا رہی ہے، جا کر دو کلو چینی لے آ۔"
معصوم یوتھوی کی سوانح حیات سہانے خواب سے اقتباس
You can follow @SaudSami.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled: