یونیورسٹی ختم ہوئے دہائی سے زیادہ بیت چکا تھا. دسمبر کے اوائل میں فیس بک پے اپنی یونیورسٹی کے استاد کو مبارکباد دیتے اس نے پہلی بار زہرا کو دیکھا. زہرا اور سیف کلاس فیلو تھے شاید اک دوسرے کو کسی حد تک پسند بھی کرتے تھے لیکن کبھی کہہ نہیں پاۓ.
فیس بک سے پہلے کے رابطے بنا موبائل نمبر شیئر کیے ممکن نہ تھے اور جب پوری کلاس نے قسم کھا رکھی ہو کہ ان دونوں کو ملنے نہیں دینا تو پھر کوئی کسی کو ڈھونڈنے میں بھی مدد نہیں کرتا.
زہرا حسیں تھی تو سیف بھی وجیہ اس لئے لڑکے اگر زہرا کا نمبر سیف سے چھپاتے رہے تو لڑکیوں نے بھی سیف سے زہرا کو ہمیشہ دور رکھا.
سیف نے کمنٹس میں زہرا کو دیکھا ہی تھا کہ زہرا کا میسج آ گیا. تم سیف ہو؟ شرم نہیں آتی یوں غائب ہوتے ہیں کیا؟ تم کو پتا ہے میں کس حال میں رہی؟ یکے بعد دیگر سوالوں سے سیف بوکھلا گیا.
پوچھنے پے معلوم ہوا کہ وہ زہرا جو ڈگری کرتے ہی شادی کر کے اپنے شوہر کے ساتھ رخصت ہوئی تھی لوگوں کی نظر لگ گئی اس کو. آج وہ تین بچوں کی اک طلاق یافتہ ماں ہے. اس کے سابقہ شوہر نے ہسپتال سے لے کر اسائلم تک اسے لگاتار تشدد سے مریض بنا دیا.
ماں باپ بیٹی کے غم میں صلح صفائیاں کرتے وفات پا چکے. بھائی کوئی تھا نہیں تین بہنیں تھیں جو اپنے اپنے گھر خوش تھیں. وہی زہرا کا سہارا تھیں .
زہرا کلاس میں بہت زہین تھی ڈگری کی بعد ماسٹر کیا اور پھر ملیشیا سے پی ایچ ڈی.
قسمت کی ستم ظریفی کہ پاکستان کے جس شہر میں سیف نوکری کر رہا تھا زہرا اسی دور میں وہاں اک کالج میں پڑھا رہی تھی .پھر ملیشیا جس شہر میں سیف نوکری کے لئے ٹرانسفر ہوا زہرا اسی شہر کی اک یونیورسٹی میں اپنی پی ایچ ڈی کر رہی تھی.
زندگی کے آٹھ سال وہ اک دوسرے کے بہت قریب رہتے ہوے بھی کبھی جان ہی نہیں پائے .اس لئے اچانک ملنے کی خوشی دیدنی تھی.
رابطہ بحال ہوا اور پہلی بار فون پے بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ زہرا پے تو قیامت بیت چکی ہے اس کے سابقہ شوہر نے اس کو اس قدر توڑ کر رکھ دیا تھا کہ زہرا کا نفسیاتی معالج سے علاج تاحال جاری تھا اور وہ اک سرکاری یونیورسٹی میں بطور لیکچرار نوکری کر رہی تھی.
گھر بھی سرکاری تھا اور تنخواہ بھی مناسب کہ سب اچھے سے منیج ہو رہا تھا. اسکے تین بچے بلترتیب او لیول ، گریڈ آٹھ اور گریڈ چار میں پڑھ رہے تھے. چھٹی والی دن زہرا بچوں کو اپنی کسی اک بہن کی طرف لے جاتی یوں زندگی کی گاڑی رواں دواں تھی .
تم نے شادی کیوں نہیں کی؟ اس نے سیف سے جھٹ پوچھ لیا . "کی تھی لیکن چلی نہیں !" سیف نے جواباً تفصیل بیان کر دی دو بچے ہیں اپنی ماں کی ساتھ رہتے ہیں اور ہم الگ ہو چکے.
زہرا اور سیف کے بچوں کی عمریں لگ بھگ اک جیسی تھیں اس لئے دونوں کو اندازہ تھا کہ آنے والے دنوں میں ان کے کیا اہداف ہو سکتے ہیں. بچوں کی تعلیم ان کی شادیاں ان کے برسرروزگار ہونے تک کے تمام معاملات ان دونوں کے ذہن میں تھے.
زہرا کا سابق شوہر خالد ، سیف اور زہرا کا یونیورسٹی میں سینئر تھا .چونکہ وہ پہلے ڈگری مکمل کر کہ اک اعلی سرکاری نوکری میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے پے فائز ہو گیا لہذا زہرا کا ہاتھ مانگنے پہ اس کے والدین انکار نہ کر پائے .
سیف اور زہرا کی پسندیدگی کی اڑتی اڑتی خبریں خالد نے بھی سن رکھی تھیں. باوجود لاکھ جتن کی خالد کبھی زہرا کی توجہ حاصل نہیں کر پایا . فرسٹ ایئر میں کلاس کی سینئرز کی ہاتھوں فولنگ سے خالد زہرا کے پیچھے پڑا تھا.
اس کے اکثر دوست بتاتے ہیں کہ وہ ضد میں تھا اک دو بار سیف سے اس کی ہاتھاپائی بھی ہوئی یوں سیف اس کے دل میں شاید رقیب کی طرح کھب گیا. ستم یہ کہ سیف ان تمام حالات سے ناواقف تھا اور اب ماضی کے ورق اس کے سامنے پلٹے جا رہے تھے تو وہ ورطہ حیرت میں ڈوبا یہ سب سن رہا تھا.
'مجھے خالد نے پہلی بار ولیمے والی صبح سب کے سامنے مارا وجہ یہ تھی کہ میں اسکی بہن کے دوسری بار بلانے سے پہلے کپڑے بدل کر تیار ہو کر ناشتے کی ٹیبل پر نہیں پہنچ پائی تھی یہ اتنا بڑا جرم تھا کہ تمام مہمانوں کے سامنے اس نے مجھے مارا اور پھر یاد دلایا کہ آئندہ اس غلطی پے معافی نہیں…
…ملے گی" تکلیف اور آنسوں میں رچے زہرا کے یہ الفاظ سیف کا دل چیر گئے . اس کی بعد کے ان گنت واقعیات جن سے معلوم ہوتا تھا یہ شادی نہیں اک انتقام تھا یہ شاید اک ہوس تھی.
روز روز کی مار پیٹ خالد کا معمول تھا .زہرا کے بال بہت لمبے اور گھنے تھے وہ اس کے لمبے بالوں کو اپنی کلائی پے لپیٹ لیتا اور پھر دوسرے ہاتھ سے اپنی بیلٹ سے مارتا.اسطرح درد سے بلکتی نہ وہ بھاگ پاتی اور نہ ہی خود کو بچا پاتی .بچے ماں کو پٹتا دیکھ کر روتے اور سہمتے رہتے .یہ منظر کشی…
…اس قدر درد ناک تھی کہ سیف یہ سب سن کر گھنٹوں روتا رہا .
سیف اپنی کلاس میں اک بیک بینچر تھا دوسروں کو کیا اسے خود اپنے آپ سے مستقبل کی کوئی امید نہیں تھی.
باپ کے اصرار پہ وہ پڑھ تو رہا تھا مگر اس کا دل کسی عملی پیشے پر مائل تھا .بلکل پڑھاکو نہیں تھا لیکن اچھے نمبروں سے پاس ہو جاتا تھا .جس وقت میں اس کے تمام کلاس فیلو مشکل مشکل انجینرنگ مضامین پڑھ کر اپنی علمی قابلیت بڑھا رہے تھے وہ امتحان کی رات تک آرام کر کہ پھر اک رات میں پڑھ…
…کر"کریٹیکل ٹائم منجمنٹ"سیکھ رہا تھا. فارغ وقت میں اک دوست کی جگہ دوکان پر بیٹھ کر کمپیوٹر بیچتا اور عملی سیلز اور مارکیٹنگ سیکھتا.
کبھی یونیورسٹی کے کمپیوٹر فریم ورک کو ہیک کرنے کی کوشش میں نیٹ ورک منجمنٹ سیکورٹی سے آشنا ہوتا تو کبھی کسی کے مکان کی لبیر کی نگرانی کر کہ سائٹ اینڈ ٹیم منجمنٹ سیکھتا .وہ اک الگ سمت میں تھا وہ کیا کر رہا تھا یہ وہ بھی نہیں جانتا تھا .کلاس میں تمام لوگ نوکریوں پہ لگ گئے سواے سیف…
…کے اور سب کو یہی امید بھی تھی .سیف کے تین تحقیقاتی مقالے مختلف بین الاقوامی جیرنل میں چھپے. کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی لیکن اک ملٹی نیشنل کمپنی نے اس سے رابطہ کیا دو تین باضابطہ میٹنگز کی بعد اسکو اک پرکشش جاب آفر کی گئی.
یہ ایم ٹو گریڈ تھا اور اک سال کی ٹریننگ کی بعد سیف اپنے تمام کلاس فیلو سے کم از کم پندرہ سال آگے تھا. آج تمام لوگ سینئر انجنیئر یا لیڈ انجنیئر تک پہنچے تھے جبکہ سیف "سائٹ انجینرنگ سینئر مینیجر" کے بعد اب ڈائریکٹر کی پوزیشن کی لئے پر تول رہا تھا.
ضرورتیں کم تھیں اور آمدنی زیادہ اس لئے روپے پیسے کی کمی نہیں تھی. بہت ملنسار تھا لیکن بھیڑ بھاڑ کو پسند نہیں کرتا تھا. تنہائی پسندی اسکی خامی نہی خود سے آشنائی کی اک کاوش تھی .
دن، ہفتےگزرے فون پے لمبی باتیں ہوتی رہیں قربتیں بڑھتی رہیں زہرا پاکستان میں تھی اور سیف قطر میں . "تم مجھ سے شادی کیوں نہیں کر لیتے" زہرا نے بےباکی سے پوچھا. "تم نے کبھی اس طرح پوچھا ہی نہیں اگر پوچھ لیتی تو ہاں ہی کہنا تھا " سیف نے جواباً مسکرا کر کہا.
رہیں گے کہاں؟ میری جاب کا کیا ہو گا؟ میں تم پے بوجھ نہیں بننا چاہتی" اک ہی سانس میں زہرا نے سب پوچھ لیا . " بھئی کون کہہ رہا ہے جاب چھوڑو کوشش کرتے ہیں یہاں پانچ چھ انٹرنیشنل یونیورسٹیاں ہیں تمہارا سی وی ڈراپ کرتے ہیں امید ہے جاب لگ جائے گی" سیف نے وضاحت دی .
"اور اگر جاب دیر سے ملی تو؟ پھر کیا ہوگا ؟" زہرا نے شوخ لہجے میں پوچھا. " پھر تم اپنے گھر رہنا اور میں اپنے گھر" سیف نے ہنستے ہنستے جواب دیا.
زہرا کے اصرار پر طے یہ پایا کہ سادہ مگر پروقار شادی کی تقریب ہوگی دونوں اپنی اک ماہ کی سالانہ چھٹیاں اسطرح ترتیب دیں گے کہ جنوری ،مارچ ،جون، ستمبر میں سیف اک اک ہفتہ پاکستان آ کر اسکے ساتھ رہ سکے اور فروری ،مئی ،اگست اور نومبر میں زہرا اک اک ہفتے کے لئے اسکے پاس آ کر رہ سکے.
دونوں نے طے کیا کہ وہ اپنے اپنے گھر کا خرچ چلاتے رہیں گے لیکن بطور شوہر سیف نے زہرا کی موجودہ آمدنی کے مساوی رقم ہر ماہ بطور جیب خرچ دینا قبول کیا. اس کے علاوہ انہوں نے چھوٹی چھوٹی ہر وہ تفصیل باہمی مشورے سے طے کر لی جو عام حالت میں جھگڑے کا سبب بن جاتی ہے.
جہاں سیف کو یہ سکون تھا کہ وہ زہرا اور اس کے بچوں کی لئے اک محفوظ مستقبل کی کوشش کر رہا ہے وہاں یہ خوشی بھی ساتھ تھی کہ اس کا انتخاب کسی بھی لالچ سے پاک ہے .
"تمیں باجی سے بات کرنی پڑے گی امی ابو کی بعد وہی میری سرپرست ہیں" زہرا نے بتایا . "ہاں کوئی نہیں اس ہفتے میں ذرا مصروف ہوں ویک اینڈ پہ بات کر لیتے ہیں" سیف نے رضامندی کا اظھار کر لیا.
زہرا کی باجی سے بات کرنے سے قبل اسکو کچھ انتظامات کرنے تھے لہٰذا پہلی فرصت میں وہ فلائٹ پکڑ کر پاکستان گیا اپنے ماں باپ کو فیصلے سے اگاہ کیا اور انکی رضامندی حاصل کی. دیر آئے درست آئے کے مصداق پے وہ بخوشی راضی تھے.
پھر اسکے بعد سیف نے دوسری اڑان بھری اور سنگاپور کا رخ کیا اپنے بچوں اور سابقہ اہلیہ کو اعتماد میں لیا اور وہ سب راضی تھے بلکہ بچے بہت خوش تھے کہ بابا اب اکیلے نہیں رہیں گے. اب اک تیسرا مرحلہ باقی تھا زہرا اور اس کے بچوں کے محفوظ مستقبل کا.
پاکستان میں سیف کی کچھ پراپرٹی تھی مختلف رہائشی سکیموں میں چند پلاٹ تھے .قبضے کے ڈر سے کبھی گھر تعمیر ہی نہیں کیا تھا. دوست کی وساطت سے اک لاء فرم کو کاغذات بنانے کا کہا.
"وکیل صاحب اب میرے پانچ بچے ہیں جائیداد کی تقسیم اس طرح کریں کہ اک پلاٹ بیٹیوں کی شادی کے زیورات میں کام آ جائے دو پلاٹ بوقت ضرورت بیچ کر بچوں کی اعلی تعلیم پے صرف ہو سکیں باقی تین پلاٹ اس طرح تقسیم کریں کہ سب کو برابر حصہ ملے اور کوئی جھگڑا یا قبضہ نہ ہو.
دو انشورنس پالیسیاں سابقہ اور مستقبل کی شریک حیات میں مساوی تقسیم کر دیں " سیف نے اک ہی سانس میں وکیل جو ہدایات دیں تو وکیل بوکھلا کر بولا "سر پچھلے سال آپکے دو بچے نہیں تھے ؟ " . سیف وکیل کا سوال ہنس کر ٹال گیا .
یہ وہ تحفہ تھا جو وہ زہرا اور اس کے بچوں کو اپناتے ہوے دینا چاہتا تھا . سرپرائز تھا اس لئے سب سے چھپا کر انتظام کر رہا تھا .اس کے نزدیک زہرا کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ ان دونوں کے بیچ پیسا اک ثانوی حثیت رکھتا تھا .
"کیسے ہو؟ اتنے دن سے گم ہو کوئی خبر نہیں؟ اچھا سنو شام کو باجی بات کریں گی تیار رہنا" زہرا کا میسج موصول ہوا. شام کو فون کی گھنٹی بجی اور انٹرویو سٹارٹ ہوا . "کتنا کما لیتے ہو؟ باجی نے سیدھا سوال پوچھا. "بس جی گزارا ہو جاتا ہے" سیف نے جھجکتے ہوے جواب دیا.
" دیکھو سیف سیدھی بات ہے میری بہن مہینے کا دو لاکھ روپے کماتی ہے ہمیں کوئی ایسا نہیں چاہیے جو اسکی کمائی پے پلے" باجی نے سیدھا وار کیا.
" باجی ہم یہ سب تفصیل طے کر چکے ہیں آپ چاہیں تو اسکی گارنٹی چیک ،شخصی ضمانت یا آپکی بہن کے نام ماہانہ آمدنی اکاؤنٹ کھول کر لے سکتی ہیں" سیف نے وضاحت کی. "ہمیں کیا معلوم یہ تم افورڈ کر بھی سکتے ہو یا نہیں برا نہ ماننا آج کل بہت فراڈ ہوتا ہے" باجی نے پھر اصرار کیا.
"اک کام کرو اپنی چھ ماہ کی سیلری سلپ اور بینک ستٹمنٹ بھیجو" پھر بات کرتے ہیں. فون بند ہو گیا سیف کو یوں لگا جسے رشتے کا نہیں کسی کاروباری ڈیل کا معاملہ ہو.
لیکن شادی کی آفر بھی تو زہرا نے کی تھی پھر باجی کیوں ایسے بات کر رہی ہیں جیسے یہ کوئی کاروباری معاہدہ ہو؟ کئی سوال اسکے ذہن میں آئے مگر وہ خاموش رہا. باجی کی تاکید کے مطابق سیلری سلپ اور بینک ستٹمنٹ بھیج کر سیف اس یقین سے سویا کہ کم از کم زہرا کی سوچ ایسی نہیں ہے.
"اوہ ہو کیوں پریشان ہوتے ہو باجی کینیڈا میں ہیں بینک میں ملازمت ہے اس لئے سب کو اسی نظر سے دیکھتی ہیں تم مجھے اور میں تمہیں پسند کرتے ہیں تو باقی سب کی کوئی حیثیت ہی نہیں یہ سب فارملیٹی ہے چل میری جان اب ہنس کے دیکھا مجھے " اگلے دن زہرا کی وضاحت نے سیف کو دلشاد کر دیا.
دوپہر کو اک بزنس لنچ کے عین درمیان باجی کی کال آئی. "اچھا سنو ! یہ والی رقم ہر ماہ کہاں جاتی ہے ؟ تمہاری کار کا لون نظر نہیں آ رہا گاڑی ہے یا بس میں سفر کرتے ہو؟ فون کا اتنا بل… کس سے بات کرتے ہو ؟ " باجی کے تابڑ توڑ سوالات نے سیف کو پریشان کر کہ رکھ دیا.
بڑی مشکل سے اس نے شام تک کی مہلت لی اور بزنس لنچ میں واپس شامل ہوا. دماغ شل تھا لیکن مسکرا رہا تھا.
اگلے دو ہفتے باجی کے ساتھ صرف مالی معاملات پے گفتگو ہوئی گھر کا کرایہ بچوں کی فیس بیگم کا جیب خرچ .سیف نے پوری دیانتداری سے ہر تفصیل ان کے سامنے رکھ کر انکو مطمئن کرنے کی بھرپور کوشش کی.
"تم اک کام کرو کنال کا اک گھر اس کے نام کرو اور شادی سے پہلے اک گاڑی نکلوا کر دو اور خدا کی لئے ڈگی والی گاڑی ہو" باجی نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے فون بند کر دیا. مطالبہ کوئی اتنا ناجائز بھی نہیں تھا لیکن ایسا مطالبہ غیروں میں ہوتا ہے بقول زہرا کی سیف تو اس کا اپنا تھا .
دوسری جانب سیف جو سوچ کر بیٹھا تھا اس کی مالیت اس سے کہیں زیادہ تھی لیکن وہ اس کو بطور تحفہ دینا چاہتا تھا ناکہ بطور مطالبہ .رشتےدار شادی بیاہ میں اکثر اسے معاملات الجھا دیتے ہیں یہی سوچ کر سیف نے سب باتوں کو نظرانداز کر دیا .
"کیسے ہو ؟ تمہارے کارڈ سے کچھ کپڑوں کی خریداری کی ہے " زہرا نے شوخ لہجے میں کہا. "جی معلوم ہے نشاط ، کھاڈی اور گل احمد کے بل میسج میں ملے معلوم ہوا محترمہ شاپنگ کر رہی ہیں" سیف نے ہستے ہوے جواب دیا .
"اچھا کچھ پیسے ادھار چاہیں آرام سے واپس ہوں گے " زہرا نے کچھ سوچتے ہوے سیف سے کہا . "ٹھیک ہے کتنے بھیجوں؟ اس سلیری کے بعد بھیج دوں تو چلے گا؟ " سیف نے ہنستے ہوے پوچھا. "ابھی تو دس لاکھ سے کام چل جائے گا، پوچھو گے نہیں کہ کیوں چاہیں؟" زہرا نے سیف سے اصرار کیا .
"نہیں " سیف نے استقامت سے جواب دیا . "ائی لو یو" زہرا نے اک گہری سانس لے کر سرگوشی میں کہا . "کیا کہا ؟ آواز نہیں ائی " سیف نے اس کو تنگ کرتے ہوے کہا اور فون بند ہو گیا.
ہفتے مہینوں میں بدل گئے مارچ کے اختتام پے سیف نے باضابطہ رشتہ بھیجنے کے لئے اپنے والدین کو راضی کیا. سب خوش تھے اک نئی زندگی کا آغاز ہونے جا رہا تھا.
سیف کے والدین زہرا کی "باجی" سے چھوٹی بہن کی طرف باقاعدہ رشتہ لے کر گئے سب معاملات خوش اسلوبی سے طے پا ہی رہے تھے کہ باجی کا فون آ گیا. وہ اپنے مطالبات سے اک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھیں.
انکو سمجھایا کہ نکاح نامہ میں اک کنال مکان کی ادائیگی کی شرط لکھ دیتے ہیں لیکن اسکی خریداری کی لئے کم از کم پانچ سات ماہ کا وقت درکار ہے.
ان کا مطالبہ تھا کہ گاڑی بھی ابھی تک لے کر نہیں دی.سیف حیران تھا کہ یہ سب معاملات باجی سے فون پہ طے پا چکے تھے پھر عین آج کے دن اس تکرار کا کیا جواز تھا.بہرحال بات کو سمبھالتے دوبارہ ملاقات وقت لے کر سیف کی والدین وہاں سے رخصت ہوے .
سکائپ پر سیف یہ سب منظر اپنی انکھ سے دیکھتا افسردہ رہا.
"یہ کیا حرکت ہے؟ جب سب شرائط باجی کی ساتھ طے ہو گئیں تھی تو یوں اصرار کی وجہ؟ " سیف نے زہرا سے وضاحت چاہی. "باجی جو کر رہی ہیں میری بھلائی کی لئے کر رہی ہیں" زہرا نے ترکی بتُرکی جواب دیا.
"مجھ پے اعتبار نہیں تھا؟ ہمارے بیچ پہلا کنکشن کو یقین ہی تھا نا؟ یہ پیسا کہاں سے آ گیا بیچ میں؟" سیف نے صاف صاف پوچھ ہی لیا. "اک گاڑی تو لےکر دی نہیں جاتی تم سے اور باتیں کروا لو" زہرا نے شکایت کی .
" انکار نہیں کیا چند مہینے مانگے ہیں گاڑی اون پے لینے کا کیا فائدہ کچھ دن صبر کر لو سٹی کا کہہ چکا ہو" سیف نے وضاحت کی . "سٹی ؟ باجی جہاں رشتہ کروا رہی تھیں وہ سیوک دینے کو راضی تھا" زہرا نے انکشاف کیا. سیف خاموش ہو گیا وہ معاملات کو مزید الجھانا نہیں چاہتا تھا.
فون پے خاموشی ہو گئی . "ہیلو… ہیلو …. سن رہے ہو ؟ اچھا اب غصہ تھوکو ہم پھر اس بارے میں بات کر لیں گے میرا فون ٹوٹ گیا ہے اک آئی فون چاہیے مجھے" زہرا آواز کھنکی .دوسری جانب سیف شاید سو چکا تھا.
"جی سیف صاحب میں ارشاد ملک ایڈووکیٹ بول رہا ہوں آپ کا لیگل ایڈوائزر " فون پے اک مانوس آواز نے سیف کو صبح نیند سے جگا دیا. "جی وکیل صاحب " سیف نے استفسار کیا .
"آپ کے کاغذات ریڈی ہیں زہرا میڈم کا برتھ ڈے دس اپریل ہو ہوتا ہے.میں نے سوچا ان کو آپ کی طرف سے یہ تحفہ دینے سے پہلے آپ کو بتا دوں" وکیل نے پوری تفصیل بیان کی .
"اس کی ضرورت نہیں رہی وکیل صاحب میڈم کو اک آئی فون کی ضرورت ہے بس وہ ہی بھجوا دیں" سیف کی بھرائی ہوئی آواز کے ساتھ رابطہ منقطع ہو گیا …..
You can follow @prototypecitize.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled: