#Iqbal
شکوہ ۔۔ جواب شکوہ (مُکمّل) علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ

کيوں زياں کار بنوں ، سود فراموش رہوں
فکر فردا نہ کروں محو غم دوش رہوں
نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا ميں بھي کوئي گل ہوں کہ خاموش رہوں
جرات آموز مري تاب سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے ، خاکم بدہن ، ہے مجھ کو
#Iqbal

ہے بجا شيوہء تسليم ميں مشہور ہيں ہم
قصہ درد سناتے ہيں کہ مجبور ہيں ہم
ساز خاموش ہيں ، فرياد سے معمور ہيں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہيں ہم
اے خدا! شکوہء ارباب وفا بھي سن لے
خوگر حمد سے تھوڑا سا گلا بھي سن لے
تھي تو موجود ازل سے ہي تري ذات قديم
#Iqbal

پھول تھا زيب چمن پر نہ پريشاں تھي شميم
شرط انصاف ہے اے صاحب الطاف عميم
بوئے گل پھيلتي کس طرح جو ہوتي نہ نسيم
ہم کو جمعيت خاطر يہ پريشاني تھي
ورنہ امت ترے محبوب کي ديواني تھي؟
ہم سے پہلے تھا عجب تيرے جہاں کا منظر
کہيں مسجود تھے پتھر ، کہيں معبود شجر
#Iqbal

خوگر پيکر محسوس تھي انساں کي نظر
مانتا پھر کوئي ان ديکھے خدا کو کيونکر
تجھ کو معلوم ہے ، ليتا تھا کوئي نام ترا؟
قوت بازوئے مسلم نے کيا کام ترا
بس رہے تھے يہيں سلجوق بھي، توراني بھي
اہل چيں چين ميں ، ايران ميں ساساني بھي
اسي معمورے ميں آباد تھے يوناني بھي
#Iqbal

اسي دنيا ميں يہودي بھي تھے ، نصراني بھي
پر ترے نام پہ تلوار اٹھائي کس نے
بات جو بگڑي ہوئي تھي ، وہ بنائي کس نے
تھے ہميں ايک ترے معرکہ آراؤں ميں
خشکيوں ميں کبھي لڑتے ، کبھي درياؤں ميں
ديں اذانيں کبھي يورپ کے کليساؤں ميں
کبھي افريقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں ميں
#Iqbal

شان آنکھوں ميں نہ جچتي تھي جہاں داروں کي
کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں ميں تلواروں کي
ہم جو جيتے تھے تو جنگوں کے مصيبت کے ليے
اور مرتے تھے ترے نام کي عظمت کے ليے
تھي نہ کچھ تيغ زني اپني حکومت کے ليے
سربکف پھرتے تھے کيا دہر ميں دولت کے ليے؟
#Iqbal

قوم اپني جو زر و مال جہاں پر مرتي
بت فروشي کے عوض بت شکني کيوں کرتي!
ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ ميں اڑ جاتے تھے
پاؤں شيروں کے بھي ميداں سے اکھڑ جاتے تھے
تجھ سے سرکش ہوا کوئي تو بگڑ جاتے تھے
تيغ کيا چيز ہے ، ہم توپ سے لڑ جاتے تھے
نقش توحيد کا ہر دل پہ بٹھايا ہم نے
#Iqbal

زير خنجر بھي يہ پيغام سنايا ہم نے
تو ہي کہہ دے کہ اکھاڑا در خيبر کس نے
شہر قيصر کا جو تھا ، اس کو کيا سر کس نے
توڑے مخلوق خداوندوں کے پيکر کس نے
کاٹ کر رکھ ديے کفار کے لشکر کس نے
کس نے ٹھنڈا کيا آتشکدہ ايراں کو؟
کس نے پھر زندہ کيا تذکرہ يزداں کو؟
#Iqbal

کون سي قوم فقط تيري طلب گار ہوئي
اور تيرے ليے زحمت کش پيکار ہوئي
کس کي شمشير جہاں گير ، جہاں دار ہوئي
کس کي تکبير سے دنيا تري بيدار ہوئي
کس کي ہيبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے
منہ کے بل گر کے ‘ھو اللہ احد’ کہتے تھے
#Iqbal

آ گيا عين لڑائي ميں اگر وقت نماز
قبلہ رو ہو کے زميں بوس ہوئي قوم حجاز
ايک ہي صف ميں کھڑے ہو گئے محمود و اياز
نہ کوئي بندہ رہا اور نہ کوئي بندہ نواز
بندہ و صاحب و محتاج و غني ايک ہوئے
تيري سرکار ميں پہنچے تو سبھي ايک ہوئے
#Iqbal

محفل کون و مکاں ميں سحر و شام پھرے
مے توحيد کو لے کر صفت جام پھرے
کوہ ميں ، دشت ميں لے کر ترا پيغام پھرے
اور معلوم ہے تجھ کو ، کبھي ناکام پھرے!
دشت تو دشت ہيں ، دريا بھي نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات ميں دوڑا ديے گھوڑے ہم نے
#Iqbal

صفحہ دہر سے باطل کو مٹايا ہم نے
نوع انساں کو غلامي سے چھڑايا ہم نے
تيرے کعبے کو جبينوں سے بسايا ہم نے
تيرے قرآن کو سينوں سے لگايا ہم نے
پھر بھي ہم سے يہ گلہ ہے کہ وفادار نہيں
ہم وفادار نہيں ، تو بھي تو دلدار نہيں!
#Iqbal

امتيں اور بھي ہيں ، ان ميں گنہ گار بھي ہيں
عجز والے بھي ہيں ، مست مےء پندار بھي ہيں
ان ميں کاہل بھي ہيں، غافل بھي ہيں، ہشيار بھي ہيں
سينکڑوں ہيں کہ ترے نام سے بيزار بھي ہيں
رحمتيں ہيں تري اغيار کے کاشانوں پر
برق گرتي ہے تو بيچارے مسلمانوں پر
#Iqbal

بت صنم خانوں ميں کہتے ہيں ، مسلمان گئے
ہے خوشي ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے
منزل دہر سے اونٹوں کے حدي خوان گئے
اپني بغلوں ميں دبائے ہوئے قرآن گئے
خندہ زن کفر ہے ، احساس تجھے ہے کہ نہيں
اپني توحيد کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہيں
#Iqbal

يہ شکايت نہيں ، ہيں ان کے خزانے معمور
نہيں محفل ميں جنھيں بات بھي کرنے کا شعور
قہر تو يہ ہے کہ کافر کو مليں حور و قصور
اور بيچارے مسلماں کو فقط وعدہ حور
اب وہ الطاف نہيں ، ہم پہ عنايات نہيں
بات يہ کيا ہے کہ پہلي سي مدارات نہيں
#Iqbal

کيوں مسلمانوں ميں ہے دولت دنيا ناياب
تيري قدرت تو ہے وہ جس کي نہ حد ہے نہ حساب
تو جو چاہے تو اٹھے سينہء صحرا سے حباب
رہرو دشت ہو سيلي زدہء موج سراب
طعن اغيار ہے ، رسوائي ہے ، ناداري ہے
کيا ترے نام پہ مرنے کا عوض خواري ہے؟
#IqbalDay

بني اغيار کي اب چاہنے والي دنيا
رہ گئي اپنے ليے ايک خيالي دنيا
ہم تو رخصت ہوئے ، اوروں نے سنبھالي دنيا
پھر نہ کہنا ہوئي توحيد سے خالي دنيا
ہم تو جيتے ہيں کہ دنيا ميں ترا نام رہے
کہيں ممکن ہے کہ ساقي نہ رہے ، جام رہے!
#Iqbal

تيري محفل بھي گئي ، چاہنے والے بھي گئے
شب کے آہيں بھي گئيں ، صبح کے نالے بھي گئے
دل تجھے دے بھي گئے ، اپنا صلا لے بھي گئے
آ کے بيٹھے بھي نہ تھے اور نکالے بھي گئے
آئے عشاق ، گئے وعدہء فردا لے کر
اب انھيں ڈھونڈ چراغ رخ زيبا لے کر
#Iqbal

درد ليلي بھي وہي ، قيس کا پہلو بھي وہي
نجد کے دشت و جبل ميں رم آہو بھي وہي
عشق کا دل بھي وہي ، حسن کا جادو بھي وہي
امت احمد مرسل بھي وہي ، تو بھي وہي
پھر يہ آزردگي غير سبب کيا معني
اپنے شيداؤں پہ يہ چشم غضب کيا معني
#Iqbal

تجھ کو چھوڑا کہ رسول عربي کو چھوڑا؟
بت گري پيشہ کيا ، بت شکني کو چھوڑا؟
عشق کو ، عشق کي آشفتہ سري کو چھوڑا؟
رسم سلمان و اويس قرني کو چھوڑا؟
آگ تکبير کي سينوں ميں دبي رکھتے ہيں
زندگي مثل بلال حبشي رکھتے ہيں
#Iqbal

عشق کي خير وہ پہلي سي ادا بھي نہ سہي
جادہ پيمائي تسليم و رضا بھي نہ سہي
مضطرب دل صفت قبلہ نما بھي نہ سہي
اور پابندي آئين وفا بھي نہ سہي
کبھي ہم سے ، کبھي غيروں سے شناسائي ہے
بات کہنے کي نہيں ، تو بھي تو ہرجائي ہے !
#Iqbal

سر فاراں پہ کيا دين کو کامل تو نے
اک اشارے ميں ہزاروں کے ليے دل تو نے
آتش اندوز کيا عشق کا حاصل تو نے
پھونک دي گرمي رخسار سے محفل تو نے
آج کيوں سينے ہمارے شرر آباد نہيں
ہم وہي سوختہ ساماں ہيں ، تجھے ياد نہيں؟
وادي نجد ميں وہ شور سلاسل نہ رہا
قيس ديوانہ نظارہ محمل نہ رہا
#Iqbal

حوصلے وہ نہ رہے ، ہم نہ رہے ، دل نہ رہا
گھر يہ اجڑا ہے کہ تو رونق محفل نہ رہا
اے خوش آں روز کہ آئي و بصد ناز آئي
بے حجابانہ سوئے محفل ما باز آئي
بادہ کش غير ہيں گلشن ميں لب جو بيٹھے
سنتے ہيں جام بکف نغمہ کو کو بيٹھے
#Iqbal

دور ہنگامہ گلزار سے يک سو بيٹھے
تيرے ديوانے بھي ہيں منتظر ‘ھو’ بيٹھے
اپنے پروانوں کو پھر ذوق خود افروزي دے
برق ديرينہ کو فرمان جگر سوزي دے
قوم آوارہ عناں تاب ہے پھر سوئے حجاز
لے اڑا بلبل بے پر کو مذاق پرواز
#Iqbal

مضطرب باغ کے ہر غنچے ميں ہے بوئے نياز
تو ذرا چھيڑ تو دے، تشنہء مضراب ہے ساز
نغمے بے تاب ہيں تاروں سے نکلنے کے ليے
طور مضطر ہے اسي آگ ميں جلنے کے ليے
مشکليں امت مرحوم کي آساں کر دے
مور بے مايہ کو ہمدوش سليماں کر دے
You can follow @ihtiatkr.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled: