ایک دوست نے لکھا کہ میاں صاحب یہ جنگ نہایت بے وقوفی سے لڑ رہے ہیں، ان کا خیال ہے کہ ڈائریکٹ گولہ باری کرکے وہ اپنے اور اپنی پارٹی کے لئے آپشنز محدود کر رہے ہیں۔کسی بھی جنگ کو لڑنے کے ایک سے زیادہ طریقے ہوسکتے ہیں مثلاً فاطمہ جناح کو جب فیلڈ مارشل نے زہر دلوایا تو ان کے لواحقین
یہاں تھے ہی نہیں اس لئے فیلڈ مارشل کو کسی نے کچھ کہا ہی نہیں بالآخر ان کے اپنے گھر میں ان کے پوتے کو ہی نعرہ مستانہ لگانا پڑا، اور جنرل آغا یحییٰ نے تو باقاعدہ حکماء کو ہی اس ملک کی طاقت کا منبع بنا دیا لیکن مجال ہے کہ مغربی پاکستان سے کوئی ان کو یہ بھی کہہ سکا ہو کہ حضور یہ کیا
کاروبار کھول رکھا ہے گویا اگر کچھ باتیں ہو بھی رہیں تھیں تو ڈرائینگ رومز میں ہو رہی تھیں۔انیس سو اکہتر میں اتنا گہرا ذخم کھانے کے باوجود کسی نے زخم کی وجہ بننے والوں کی تضحیک کی نہ طعنہ دیا، بھٹو عوام میں مقبول ہونے کے باوجود خوفزدہ رہے اور اپنے ساتھیوں سے یہی کہتے رہے کہ احتیاط
کرو، اور اس کا نتیجہ نکلا ستتر کا اسلامی انقلاب جس میں اسلام کو اتنا زیادہ غالب کر دیا گیا کہ الامان الحفیظ، کوئی اگر بات کرتا بھی تھا رپورٹ نہیں ہوتا تھا اور مزاحمت کرنے والوں کو کوڑے لگائے جاتے رہے، سندھ میں مزاحمت ہوئی تو انہیں بھی عبرت کا نشان بنا دیا گیا گویا جنگ لڑنے کا
طریقہ یہ طے پایا کہ ہونٹوں پر ظالم کا نام آنے کا مطلب اپنے آپ کو برباد کرنا ہے۔ضیا نے جونیجو کو جرم ضعیفی کی سزا سنائی تو بھی کوئی آواز نہ اٹھی لیکن سندھ کی عوام نے بہرحال نفرت کی ایک اور گرہ باندھ لی۔اور بھٹو خاندان نے تو حد ہی کر دی، بینظیر نے اپنے باپ کی لاش کو رات کے اندھیرے
میں دفنا دینے والی بات بھی برداشت کر لی اور اپنے بھائی کو اپنے ہی دور اقتدار میں اپنی آنکھوں کے سامنے خون میں لت پت دیکھا اور قاتلوں کا نام بھی نہ لے سکی، ہمیشہ نواز شریف کو تو کہا کہ آئی جے آئی میں سازش کے تحت شریک ہوا اسامہ سے پیسے لئیے لیکن نام نہیں لیا کہ اسلم بیگ اور حمید
گل کیا کیا گل کھلا رہے ہیں، بس گول مول باتیں کیں، تو کیا انہوں نے بینظیر کو معاف کر دیا؟ پہلا دھماکہ کرکے اسے لاشوں کا تحفہ دیا اور پھر اسے بھی ایک لاش میں بدل دیا، بینظیر نے بہرحال اتنی ہمت دکھائی کہ بریگیڈئر اعجاز اور مشرف کا نام لے گئیں تھیں۔
پھر آگئے مفاہمت کے بادشاہ جو اتنے
مجبور اور بے بس تھے کہ جنرل کیانی کو ایکسٹینشن دینی پڑی، لیکن شرم و حیا اتنی کہ کبھی کیانی کا نام نہیں لیا کہ وہ نواز کے ساتھ مل کر سازش کر رہا ہے، وہ تو نواز شریف نہ بتاتا تو کسی کو پتہ نہ چلتا۔نواز شریف کو پتہ تھا کہ جنرل ظہیر الاسلام دھرنے کے پیچھے ہے لیکن نام نہیں لیا، راحیل
شریف نے ایکسٹینشن کے لئے نک و نک کر دیا لیکن مجال ہے کہ ایک شکن بھی جبیں پر آئی ہو البتہ طارق فاطمی،پرویز رشید کو ناکردہ گناہوں کی سزا دی، مشاہد اللہ سے وزارت واپس لی۔دو ٹکے کے سرکاری ملازم نے ٹویٹ کی کہ وزیراعظم اور ان کی تحقیق کو ریجیکٹ کیا جاتا ہے لیکن وہ سرکاری ملازم اسی
عہدے پر مونگ دلتا رہا، ابھی چند دن پہلے کی ایکسٹینشن کے دن ہی یاد کرلیں، پاکستان میں موجود ہر شخص یہ جانتا تھا کہ یہ ایکسٹینشن نہ صرف ملک بلکہ اس ادارے کے لئے بھی زہر قاتل ہے کیونکہ اس سے بہت سوں کی حق تلفی ہوگی لیکن ایکسٹینشن اس سلیکٹڈ نے ببانگ دہل دی بلکہ اس ہر فخر کا اظہار بھی
کیا بوٹ پالش کی ایسی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی ویسے موصوف ساری زندگی ایکسٹینشن کی مخالفت کرتا رہا اور پھر اسی کی دی ہوئ ایکسٹینشن کو بنیاد بنا کر سپریم کورٹ کے حرامخور ججز نے قانون بنانے کا کہا اور پھر اس قانون کو اپوزیشن چاہے اب ہمیں جو مرضی وجہیں بتائ جائیں مگر یے حقیقت
ہے اس ایکسٹینشن کے لیے قانون سازی اپوزیشن اور حکومت دونوں نے ۳۶۵ ووٹ سے کر کے دی
تو برادران اسلام اس ملک کی ایک تاریخ ہے اس میں چپ رہنے والے بھی معاف نہیں کئے جاتے اور بولنے والے بھی۔یہ لمبی لڑائی ہے اس میں مختلف پینترے بدل کر دیکھ لیں، حالات تھوڑے سے بدل گئے ہیں اور اب تاریخ میں
پہلی بار میاں نواز شریف اور مریم نواز نے وہ بیانہ لیا اور کھل کر ان کرداروں کا زکر کیا جو ہمارے سیاست دان اپوزیشن میں ہو کر بھی کبھی نہیں کرتے کیوںکہ ان کرداروں کی گرفت ملک پر اتنی زیادہ ہے کہ ان سے لڑائ کوئ مول نہیں لینا چاہتا جو باتیں پہلے ڈرائینگ رومز میں بند کمروں میں ہوتی
تھیں وہ نواز شریف کے دلیرانا بیانات سے سڑکوں پر آگئی ہیں، آج ایک پیدل سے لے کر گاڑی والا اور ریہڑی والے سے لے کر ڈیاپارٹمنٹل سٹور کے مالک تک کو پتہ چل چکا ہے کہ بہتر سال سے اس ملک کا خون جونکوں کی طرح کون چوس رہا ہے اور یے جونکیں جب دل چاہتا ہے کسی بھی محب وطن کو غدار بنا دیتی
ہیں جب دل چاہتا ہے اسے محب وطن بنا دیتی ہیں جب دل چاہے نواز شریف جیسے ملک کے محسن کو خیالی تنخواہ پر نا اہل قرار دلوا دیتی ہیں اور جب دل چاہے عمران جیسے جھوٹے منافق کرپٹ دو نمبر کو صادق امین قرار دلوا دیتی ہیں سرکاری ملازموں اور سیاستدانوں میں یہ فرق بہرحال ہوتا ہے کہ سیاستدان
نے ریٹائر نہیں ہونا ہوتا،اس کی کوئی وردی نہیں ہوتی جس کے اترتے ہی وہ ایک مدبر اور نجات دہندہ سے گر کر ذلت کا نشان بن جائیں۔تاریخ یہی بتاتی ہے ہر آمر اور دو نمبر وردی اترنے کے بعد زلیل اور رسوا ہی ہوا ہے اور ڈاکٹرائین والا تو اتنی جلدی ہوا ہے کہ شائد ہی کوئ اور ہوا ہو خدا کی لاٹھی
واقعی بے اواز ہے۔
You can follow @IQamjadID.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled: