تھریڈ: بلوچستان میں دہشت گردی کی بنیاد اور آج کے مسنگ پرسنز کی اصل حقیقت

تمام معلومات 👇 تھریڈ سے لی گئی ہیں
ترجمے کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اصل حقیقت کا فہم دینا تاکہ وہ مسنگ پرسنز پر کئے جانے والے منظم پروپیگنڈے کو سمجھ سکیں https://twitter.com/KhurramDehwar/status/1277542898653896704
یہ قبائلی سردار سوویت یونین سے متاثرANP کے ممبر تھے
1970 کےانتخابات میں ہندوستان کی سرپرستی میں عوامی لیگ کےاتحادی بھی مشرقی پاکستان پر ہندوستان کے حملےکے بعد انہوں نے بنگالی سفارت کاروں سے ملاقات کی تاکہ بلوچستان کی پاکستان سےعلیحدگی کامنصوبہ بنایاجاسکے
1973 میں نواب اکبر بگٹی نےعوامی طور پر اس منصوبے کو رد کرتے ہوئے کے جی بی اور را کےکہنے پر پاکستان کو توڑنےکےاس ’لندن پلان‘ کو بے نقاب کردیا

اکبر بگٹی کو گورنر بلوچستان بنایا گیا اور انہوں نے مری اور مینگل کے زیر اثر BLA کے خلاف فوجی آپریشن کی نگرانی کی
بی ایل اے کے ساتھ ایک اور دہشت گرد گروہ بی ایل ایف کی تشکیل 1964 میں کچھ بلوچی طلبا نے شام میں کی
ان دونو کی تشکیل سازی طالب علم رہنما جمعہ خان مری نے کی
جو رامکانی قبیلے کے سردار کے بیٹے ہزار خان مری اور بی ایل اے کے سینئر کمانڈر تھے
بی ایل ایف کا مقصد ایران اور پاکستان میں بلوچی آبادی والے علاقوں پر مبنی ایک آزاد گریٹر بلوچستان تھا
ایران امریکہ کا اتحادی تھا
سوویت اور شام کی بائیں بازو کی جماعت نےمکمل سپورٹ دی
جمعہ خان مری گریٹر بلوچستان کےجھنڈے کےڈیزائنر کےطور پر بھی جانےجاتے ہیں
مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی اور بلوچستان میں BLA / BLFکا بنیادی فرق یہ تھا کہ ہندوستان نے مشرقی بنگال پر حملہ کیا مگر ایران نے ان کو شکست دینے کیلئے پاکستان کاساتھ دیا
شورش کو شکست ہوئی
اور عسکریت پسندوں کو گرفتار کرلیا گیا یا انھوں نے ہتھیار ڈال دیئے
شیرمحمد مری۔ہزارخان مری کی گرفتاری اور علی محمد مینگل کےہلاک ہونےکےبعدمری اور مینگل سردار اپنےاہم کمانڈرز سےمحروم ہوگئے
عطااللہ مینگل برطانیہ اورخیر بخش مری نے10 ہزار قبائلیوں کےساتھ افغانستان خود ساختہ جلاوطنی اختیار کی
دونوں تنظیمیں وہاں منتقل ہو گئی
افغانستان سے خیر بخش مری اور لندن سے عطا اللہ مینگل نےسوویت کے جی بی اور ہندوستانی را کی سرپرستی میں پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیاں جاری رکھیں

لیکن سوویت یونین کے خاتمےنے پاکستان میں بھی نظریہ مارکسزم کو دفن کردیا اور دونوں سردار پاکستان واپس آگئے
بی ایل ایف نے پوری دنیا میں مقیم بائیں بازو کے بلوچ جلاوطنوں کی مدد سے پاکستان اور ایران کے بلوچ علاقوں کی آزادی اور گریٹر بلوچستان کی تحریک کو جاری رکھا

بعد میں جمعہ خان مری ماسکو چلے گئے اور اسی نظریئے کے روح رواں رہے
جمعہ خان مری کےوالد ہزار خان مری نے سوویت یونین کےخاتمے کے بعد نظریہ مارکسزم کےسیاسی دیوالیہ پن کو تسلیم کیا اور پھر سےقومی دھارے میں شامل ہوکر سیاست شروع کی
اور دہشت گردی کے خلاف مہم چلائی لیکن بی ایل اے کےدوسرئے کوفاؤنڈر شیر محمد مری ہندوستان چلےگئے
شیر محمد مری سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ایک ناکام اور مایوس شخص کے طور پہ سامنے آیا
کے جی بی اور را کا ایجنٹ ہونے سے انکار کرنے کے باوجود وہ افغانستان میں رہائش پذیر رہا اور پھر ہندوستان چلا گیا جہاں مئی 1993 میں اس کی وفات ہوئی
1990 میں اکبر بگٹی وزیراعلیٰ بنے اور ان کے بیٹے پارلیمنٹیرین اور وزیر بن گئے
پھر اختر مینگل وزیراعلیٰ بنے اور خیر بخش مری کے بیٹے پارلیمنٹیرین اور وزیر بھی بنے

نظریہ مارکسزم کی جگہ اب سرمایہ دارانہ نظام کے نظریئے نے لے لی
ان عسکریت پسندوں کی واپسی نے بلوچستان کی طلبہ کی سیاست کو بھی متاثر کیا
بلوچستان سٹوڈنٹ آرگنائزیشن بہت سے دھڑوں میں بٹ گئی ہر ایک کسی نہ کسی سردار اور سیاسی جماعت سے وابستہ ہو گیا اور ایک دوسرئے سے زیادہ طاقتور اور اثرو رسوخ حاصل کرنے کی دوڑ میں لگ گیا
2002 میں بولان میڈیکل کالج میں طالب علم رہنما اللہ نذر نے بی ایس او آزاد کے نام سے جماعت تشکیل کی

بی ایس او آزاد کے اس👇 پروپیگنڈہ ویڈیو میں اللہ نذر نے ریاست سے آزادی کیلئے کھلی اور مسلح بغاوت کا اعلان کیا
افغانستان پر امریکی حملے اور کے جی بی اور را سے منسلک Khad ایجنٹوں کی کابل میں اقتدار میں واپسی کے بعد
اور بھارت کے انٹلیجنس بیورو کے اجیت ڈوول کی سربراہی میں
بلوچستان کے ان دہشت گردی کے نیٹ ورکس کی مالی اعانت اور سرپرستی کی گئی
ہندوستانی فنڈنگ سے بی ایل اے کو دوبارہ فعال کیا گیا جس کی سربراہی اب نواب خیر بخش مری کے بیٹے ہربیار ، بالاچ اور مہران کر رہے ہیں
بالاچ مری کے براہمداغ بگٹی اور جاوید مینگل کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے بگٹی اور مینگل قبائل سے بھی مسلح معاونت ملتی رہی
لیکن ہندوستانی ایجنسیوں کی سب سے زیادہ دلچسپی بی ایس او آزاد کےعسکریت پسند اور تشدد کےحامی طلبا کارکنوں میں سرمایہ کاری کرنا تھی تاکہ انہیں ریاست کے خلاف استعمال کیاجاسکےاسی لئےڈاکٹر اللہ نذر کو بی ایس او آزاد سےترقی دئےکر بی ایل ایف کی قیادت سونپ دی گئی
اللہ نذرنےBSO-Azadکوطلباکارکنوں کی بھرتی کیلئےاستعمال کیاتاکہ مستقبل میں BLFکیلئےدہشت گردی میں معاونت کریں
خیربخش مری،اکبر بگٹی اورعطا اللہ مینگل نےاپنےمقامی قبائلی حریفوں پرگرفت رکھنےکیلئےافغانستان سےجوہتھیاربھارتی فنڈنگ سےاسمگل کئےجارہےتھےانکااستعمال کیا
قبائلی مزاحمت امن و امان کے مسائل کی شکل اختیار کرنےلگیں
سوئی رائلٹی پر مذاکرات کی ناکامی کےبعد ڈیرہ بگٹی میں سوئی گیس فیلڈ میں اکبر بگٹی کےحکم پر راکٹ فائر کیےگئےجس کے بعداسکی گرفتاری کے احکامات جاری کردیئے گئےاور وہ مری Marriپہاڑیوں میں فرار ہوگیا
فرار کا اہتمام براہمداغ بگٹی نے کیا اور بالاچ مری نے مری قبائل کےذریعےتحفظ کی یقین دہانی کرائی
اکبر بگٹی کوہلو کےقریب ایک غار میں موجود تھا
ادارئےجب اسکی گرفتاری کیلئےغار میں پہنچےتواسےایک آئی ای ڈی میں اڑایاگیا جس میں اکبر بگٹی کے ساتھ 23 فوجی شہیدہوئے
براہمداغ اور بالاچ غار میں موجود تھے لیکن وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے
براہمداغ نےغار اڑانے کا الزام بالاچ پہ لگایا جس کےنتیجےمیں دونو کےراستےالگ ہوگئے

لیکن 26 اگست 2006 وہ دن ہے جب ہندوستانیوں نےاس مسلح شورش اور مذاحمت کو مزید آگےبڑھاناشروع کیا
خیر بخش مری کے 3 بیٹوں نےبی ایل اے کی قیادت اپنے ہاتھ لینے کافیصلہ کیا
ہربیار مری لندن اور مہران مری سوئٹزرلینڈ چلےگئے اور بالاچ مری فرار ہوکر افغانستان چلے گئےفنڈز کیلئے ہندوستانی را کے ساتھ تینوں رابطے میں رہے
بالاچ نے افغانستان میں بی ایل اے کو لیڈ کیا
براہمداغ بگٹی افغانستان فرار ہوگیا اور پاکستان میں دہشت گردی اور دہشتگردوں کے تربیتی کیمپوں اور فنڈنگ کیلئے افغان این ڈی ایس کے ساتھ ساتھ بھارتی را سے بھی اپنے رابطے قائم کر لئے
اور بلوچ ریپبلکن آرمی کے نام سے دہشتگرد تنظیم چلانے لگا
ڈاکٹر اللہ نذر نے بی ایل ایف کومتحرک کیا اس نےBSO_Azad کےطلبا کےساتھ آواران میں کم آبادی والے علاقے میں اڈہ قائم کیا اور پاکستان میں دہشتگرد حملوں کیلئے بھارتی را فنڈڈ اسلحہ جو ایران اور افغانستان کے راستے ان تک پہنچ رہا تھا کا باقاعدہ استعمال شروع کر دیا
عطا اللہ مینگل کابیٹا اور اختر مینگل کا بھائی جاوید مینگل افغانستان اور پھر متحدہ عرب امارات سےسوئٹزرلینڈ فرار ہوگیا اور را کی مالی مدد سے دہشت گرد تنظیم ‘لشکر بلوچستان’ چلانے لگا
ہندوستانی ایما پہ اس گروپ نے ‘بلوچ ریپبلکن گارڈز’ کا نام بھی استعمال کیا
بالاچ مری نومبر 2007 میں افغانستان میں فائرنگ کےتبادلےمیں مارا گیا
بالاچ کےوالد نواب خیر بخش مری نےحربیار کےکمانڈر اسلم اچھو کو بالاچ مری کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا
اسلم اچھو نےہی حربیار کو قندھار میں موجود بی ایل اے کا مکمل کنٹرول سنبھالنے میں مدد کی تھی
اس کے فورا بعد حربیار اور اس کے چھوٹے بھائی مہران مری میں اختلافات پیدا ہو گئے

اسلم اچھو کے سائیڈ لائن ہو جانے کے باوجود نواب مری نے مہران کی حمایت کی جس نے بعد میں اپنی دہشتگرد تنظیم ‘یونائٹیٹڈ بلوچ آرمی’ یو بی اے کے نام سے بنائی
نواب مری نے تمام دھڑوں کو اللہ نذر کی قیادت میں اکٹھا کرنے کیلئے جاوید مینگل کے کراچی کے گھر میں کوشش کی مگر سب نے انکار کردیا
پھر ہندوستان نے آگےبڑھ کر BLA BRA UBA BLF & LEB کی دہشت گردی کی تمام سرگرمیوں کو ایک جگہ کرنےکیلئے BRAS
نامی تنظیم تشکیل دئےدی
بھارتی را کے سپورٹ کردہ ان دہشتگردوں نےافغان این ڈی ایس کے ساتھ مل کر 2008-2012 کے دوران بلوچستان میں 3،232 دہشت گردی کے حملوں میں لوگوں کی جانوں کے ساتھ کھیلا جس میں بلوچ سے لے کر پنجابی ، سندھی ، پشتون اور ہزارہ بھی نشانہ بنے
عالمی دہشت گردی ڈیٹا بیس کے مطابق

بی ایس او آزاد کا بانی اور دہشت گرد اللہ نذر بلوچ کی تنظیم بی ایل ایف صرف 2009 میں ہی ایک سو تیس شہریوں کے قتل کی ذمہ دار ہے
اللہ نذر کی تنظیم بی ایل ایف کی دہشت گردی کا سب سے خوفناک واقعہ اپریل 2015 میں تربت بلوچستان کے علاقے کیچ میں کام کرنے والے غریب مزدوروں کا خوفناک قتل تھا
خوفناک دہشت گردی کا ایک اور واقعہ نواب خیر بخش مری کے سب سے چھوٹے بیٹے ، مہران مری کی یو بی اے کی سرپرستی میں ہوا جب جون 2015 میں مستونگ بلوچستان کے علاقے میں بسوں میں سے سویلین مسافروں کو ظالمانہ انداز میں شہید کیا گیا
ایک اور بزدلانہ دہشت گردی کا حملہ
نواب خیر بخش مری کے بیٹےحربیار مری کی بی ایل اے نے جون 2017 میں کیا جب گوادر بلوچستان کے قریب پشگان کے علاقے میں کام کرنے والے غریب مزدوروں کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا
یہ دہشت گرد گروہ بھارتی میڈیا پر اپنا پروپیگنڈا پھیلاتےاور بھارتی سرپرستی سے انکار کرتے رہے
لیکن بلوچستان سے حاضر سروس ہندوستانی بحریہ کے افسر را ایجنٹ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری نے پاکستان میں دہشت گردی کی اس بھارتی سرپرستی کو بے نقاب کر دیا
اسلم اچھو بھی نظریہ مارکسزم سے متاثر ایک طالبعلم کارکن تھا جو اس 👇 الجزیرہ ویڈیو میں اپنے آپ کو بلوچ حقوق کے لئے عسکریت پسند کی حیثیت سے متعارف کروا رہا ہے اور ریاست کو حملوں کی کھلی دھمکی دئے رہا ہے
یہی اسلم اچھو بھارتی میڈیا پہ پاکستان کو توڑنے کی باتیں کر رہا ہے
بی ایل اے اور نذر اللہ کی" بلوچ سٹوڈنٹس
آرگنائزیشن ۔ آزاد " کے پروپیگنڈے کی وجہ سے بہت سارے معصوم بلوچ نوجوان تشدد اور دہشت گردی کی طرف گامزن ہوئے
افغانستان میں موجود اسلم اچھو ہی این ڈی ایس کی مدد سے سی پیک پر کام کرنے والے چینی انجینئروں کی بس پر خود کش حملے کا ماسٹر مائنڈ تھا
اس نےبی ایل اے کے کارکنوں کے اس حملے کی فوٹیج بنوائی اور اپنے بھارتی آقاوں سے فنڈنگ کی شکل میں اس کا انعام بھی وصول کیا
اسلم اچھو کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے کا ماسٹر مائنڈ بھی ہے
اس ٹیپ شدہ گفتگو کے مطابق خود کش حملے کے دوران وہ اپنے موبائل فون کے ذریعے دہشت گردوں کے ساتھ رابطے میں تھا چائینز قونصل خانے حملے سے ایک بار پھر سی پیک کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی
اسلم اچھو بھارتی میڈیا پر پاکستان مخالف اور سی پیک مخالف پروپیگنڈہ کرتا،رہا
اسے این ڈی ایس اینڈ را نےطبی علاج کے لئے ہندوستان بھی بھیجا تھا
بالاخر وہ بی ایل ائے اور یو بی ائےکے دہشت گردوں کی آپس کی جنگ میں مارا گیا
بلوچ حقوق کے نام پر ہونے والی ان دہشت گردی کی وارداتوں نے عالمی طور پہ ان مجرمانہ تنظیموں کو ایک دہشتگرد کے طور پہ نمایاں کیا
جولائی 2019 میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان مورگن اورٹاگس نے بی ایل اے کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دئے دیا
در حقیقت بی ایل ائے BRAS نامی دہشت گرد تنظیم کا حصہ ہے
جسمیں تمام دہشتگرد اسلحہ فنڈنگ اور دیگر معاملات میں ایک دوسرئے کے ساتھ تعاون میں رہتے ہیں
یہ دہشتگردی قبائلی سردار عطا اللہ مینگل اور خیر بخش مری کی سیاسی حمایت کے بغیر ممکن نہیں تھی جنھوں نے پاکستان میں دہشت گردی کی سرپرستی اور تنظیم کے لئے را اور این ڈی ایس کے ساتھ اپنےرابطوں کااستعمال کیا
👇دیکھ سکتےہیں کہ نواب مری اس پہ شرمندہ بھی نہی تھے
خیر بخش مری بلوچستان میں ہونے والی تمام دہشت گردی کا ذمہ دار ہے اور
بلوچ نوجوانوں کو شدت پسندی کی طرف بڑھانے کا موجب بھی
اس نے نہ صرف نوجوانوں کو ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے پہ ابھارا بلکہ اس نے پاکستان کو توڑنے کی مہم بھی چلائی
یہاں تک کہ اکبر بگٹی بھی ‘گریٹر بلوچستان’ سازش کےحامی رہےجوایران اور پاکستان کے بلوچی آبادی والےعلاقوں میں مارکسزم نظریہ کو ہوا دینےکی سوویت کے جی بی کی منصوبہ سازی تھی
اسی لئےسرد جنگ کےدوران دونوں ریاستوں کوامریکی اتحادی ہونے کی وجہ سےکمزور کردیا گیا تھا
اکبر بگٹی کی دہشت گردی ، راکٹ اور بم حملوں اور پھر پہاڑوں میں فرار کا سب سے زیادہ سیاسی فائدہ سردار اختر مینگل نے اٹھایا
اپنے ایک جلسے میں اس نے کھل کر اعلان کیا کہ: "زندگی میں میری جدوجہد (جہاد) کافروں کے خلاف ہے
لیکن یہ جہاد پاکستان کے خلاف ہے"
اختر مینگل اور بی این پی پارٹی کو اسکے بھائی جاویدمینگل کی سربراہی میں دہشت گرد تنظیم لشکر بلوچستان-ایل ای بی کا سیاسی ونگ قرار دیاجاسکتا ہے
وہ اعلانیہ اپنےجلسوں کےدوران پُر امن شہریوں کو بلوچ حقوق کے نام پر را فنڈڈ دہشت گردی میں شامل ہونےکی ترغیب دیتے رہے
اختر مینگل کو میڈیا پہ پاکستان سے وفاداری کا اعتراف کرنے میں اعتراض تھا

"کیا یہ کافی نہیں ہے کہ میں نے پارلیمنٹ کے ممبر بننے پر پاکستان سے وفاداری کا حلف لیا؟"

لیکن وہ یہ تسلیم نہی کرتے کہ وہ آزاد ریاست کا مطالبہ بھی کرتے رہے👇
اختر مینگل نے بلوچستان میں غیر بلوچی آباد کاروں کے خلاف ایک مہم کی قیادت کی جس کے نتیجے میں بلوچستان کے ہزاروں غیر بلوچی باشندوں کے خلاف محاذ آرائی کو ہوا دی گئی
بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کا دفاع کرتے ہوئے اللہ نذر بلوچ دہشتگرد کا بیان کہ مارئے جانے والے لوگ معصوم نہی بلکہ ریاست کے وفادار ہیں اس لئے ان کی صفائی کی جا رہی ہے
غلام محمد بی ایس او آزاد کا ایک اور نام

یہ بھی ایک سٹوڈنٹ رہنما تھا جس نے ریاست کےخلاف نوجوانوں میں زہر بھرا اور ان کو پر تشدد راہ کی طرف مائل کرتا رہا
بی ایس او آزاد اور اللہ نذر در حقیقت را کےہاتھوں کھیلنے والا ایک مہرہ جس نے حقوق کےنام پہ بلوچ طلبا کو ریاست کے خلاف ورغلایا اور پر تشدد کاروائیوں کے رستے پہ ڈال دیا
اس نے بھارتی ایما پہ سی پیک کے خلاف پروپیگنڈے کے ساتھ ساتھ منظم پرتشدد کاروائیاں بھی کیں
اس نے را کی ایما پر سی پیک کو نقصان پہنچانے کیلئے پروپیگنڈہ وڈیو بھی بنائیں
تاکہ سی پیک پہ جاری کام کو خوف و ہراس پھیلا کر روکا جا سکے 👇
بی ایس او۔آزاد دراصل تمام بلوچ دہشتگرد دھڑوں کیلئے افرادی قوت مہیا کرنے کا ذریعہ تھی جس کی وجہ سے بلوچ نوجوان ریاست کے خلاف پرتشدد اور دہشتگرد کاروائیوں میں ملوث ہوتے رہے
ان تمام دہشت گردوں کو ختم کرنے میں کئی ریاستی اہلکار اپنی جان سےچلے گئے
تعلیم حاصل کرنےکیلئے آنے والے نوجوانوں کے کچےذہنوں کومنصوبہ سازی کےساتھ ریاست کے خلاف تیار کیا جاتا اور دہشتگردی کی طرف دھکیل دیا جاتا

اور اگر کوئی ان کی اصلیت جان کر اس چنگل سےنکلنا چاہتا تو اسےعبرت ناک طریقے سےختم کر دیاجاتا تاکہ کوئی اور ایسا نہ سوچے
بزدلانہ حملوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گشت پہ مصروف گاڑیوں کو نشانہ بنایا جاتا
وہ را سے فنڈنگ حاصل کرنےکیلئےپروپیگنڈا ویڈیو بھی بناتے رہے
جیسا کہ پچھلے کلپ میں سابق عسکریت پسندوں نےبتایا کہ اللہ نذر بھارت سے ایک گاڑی پہ حملےکا دس لاکھ تک لیتا
ان بلوچی سرداروں نے اپنی زندگی کی عیاشیوں کو پورا کرنے کیلئے بھارتی فنڈنگ سے بلوچستان کے عام نوجوان کی زندگیوں کو دہشت گردی میں جھونک دیا اور خود پرتعیش زندگی کے مزے لیتے رہے
👇یہ براہمداغ بگٹی جو سوئزر لینڈ سے BRA کو چلاتا ہے
دہشتگرد تنظیم بی آر ائے چلانے والے براہمداغ بگٹی نے بھارتی اسرائیلی اور امریکی مدد کا برملا اعتراف بھی کیا👇
وہ سادہ بلوچ جو ان سرداروں کی حقیقت کو سمجھ چکےآج اعتراف کرتے ہیں کہ تمام دہشتگردی میں انکےاپنےلوگ ہی شامل رہےجوریاست پاکستان کےوفادار بلوچوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بناتے رہے
قومی دھارے میں واپس آنےوالےسابق عسکریت پسندبیرونی فنڈنگ کا اعتراف بھی کرتے ہیں
نیکٹا کے مطابق پاکستان نے ان تمام دہشت گرد تنظیموں کو بین اور کالعدم قرار دیا ہے

58-BSO-Azad
59-UBA
24-BLF
17-BLA
23-BRA
25-Lashkare Balochistan
73-BRAS
اب چلتے ہیں ماماقدیر اور مسنگ پرسنز کی طرف
ماما قدیر جو پاکستانی میڈیا کے کچھ بڑئے ناموں کے ذریعے میڈیا پہ لانچ کیا گیا تاکہ ان بلوچ مسنگ پرسنز کو مظلوم بنا کر پیش کر سکے
جو درحقیقت بی ایل ائے جیسی تنظیموں کیلئے دہشتگردی کی خاطر پہاڑوں میں چھپےہوئےہیں
بلوچ حقوق اور مسنگ پرسنز کے لئے لڑنے والے سب سے بڑئے کردار ماما قدیر کس طرح پاکستان کے خلاف بھارت سے اعلانیہ مدد مانگ رہے ہیں👇
بد قسمتی سے پاکستانی میڈیا کے جو نام کل تک عالمئ سطح پہ تسلیم شدہ دہشتگرد تنظیم کے اللہ نذر بلوچ کو ہیرو بنا کر پیش کرتے رہے وہی ماما قدیر کو میڈیا پہ مسنگ پرسنز کے نام پہ پروپیگنڈہ کیلئے پلیٹ فارم فراہم کرتے رہے
ماما قدیر نے پروپیگنڈے کیلئے ہمیشہ عورتوں اور بچوں کو جذباتی انداز میں استعمال کیا
مگرجو خواتین اپنےمسنگ پرسنز کارونا روتی رہیں ان میں سے اکثر پاکستان میں دہشت گردی کرتے ہوئے مارئے گئے یا آج بھی افغانستان میں موجود بی ایل ائے کیلئے کام کر رہے ہیں
خواتین کے اس کردار کو بھی بی ایس او ۔آزاد کی ہی ایک پالیسی سمجھا جا،سکتا ہے جس کے مطابق عورتوں کو بھی آزاد بلوچستان کی تحریک میں متحرک کیا گیا
اور ان کو باقاعدہ پروپیگنڈہ کے ذریعہ کے طور پر استعمال کیا گیا تاکہ وہ دہشت گردوں کیلئے ہمدردی حاصل کرتی رہیں
سب سے پہلا نام فرزانہ مجید

وہ پہلی خاتون کارکن جس نے ماما قدیر کے لاپتہ افراد کے پروپیگنڈہ کےلئے کوئٹہ سے اسلام آباد مارچ کو لیڈ کیا اور اس مارچ میں نمایاں طور پر ابھر کے سامنے آئی

مگر مظلومیت کا رونا روتی فرزانہ مجید کی اصل حقیقت کیا تھی ؟
فرزانہ مجید نے اپنے گمشدہ بھائی کے لئے مہم چلائی لیکن اس کا بھائی ذاکر مجید دہشت گرد تنظیم بی ایس او آزاد کا سینئر وائس چیئرمین تھا اور یہ بات ہی بتانے کیلئے کافی ہے کہ وہ دہشتگرد بی ایس او آزاد اور بی ایل اے کی ٹیرر سرگرمیوں میں مصروف تھا
ذاکر مجید بی ایس او آزاد کے پلیٹ فارم سے بلوچ طلبا کو پر تشدد مزاحمت پہ ابھارتا رہا
ذاکر مجید کا این ڈی ایس اور را کی جانب سے بلوچستان اور سندھ میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث دہشت گردوں سے براہ راست تعلق تھاجس کا ثبوت اس کی افغانستان میں بی ایس او آزاد کے دہشت گرد بانی اور بی ایل ایف کے سربراہ اللہ نذر کے بیٹے کے ساتھ اسکی موجودگی ہے👇
ذاکر مجید جو کہ افغانستان میں اللہ نذر کے ساتھ تھا اسکو مسنگ پرسن بنا کر فرزانہ مجید پاکستان میں پروپیگنڈہ مہم چلاتی رہی اور میڈیا پہ ان دہشتگردوں کو مظلوم بنا کر ہمدردی وصول کرتی رہی
اس سے بہتر طور پر اندازہ ہو جاتا ہےکہ مسنگ پرسنز کی اصل حقیقت کیاہے
اپنی ان پراپیگنڈہ مہمات کے نتیجے میں فرزانہ مجید کو ماما قدیر کے ساتھ امریکہ جانے کا موقع مل گیا
اس نے امریکہ میں سیاسی پناہ حاصل کی اور ’مسنگ پرسنز‘ اور ‘بلوچ حقوق’ کے نام پہ بھارتی فنڈنگ بی ایل اے کے ذریعے براہ راست حاصل کرنے لگی
اس کا ہینڈلر جس نے ایف بی آئی ایجنٹ سے شادی کی اور حربیار مری کا امریکہ میں ایکٹو عسکری نمائندہ تھافرزانہ مجیداسکی مدد سے نیو ویلی پنسلوینیا میں سیٹل ہو گئی
اور ہیومن رائٹس این جی او کےپلیٹ فارم سے پاکستان کےخلاف پروپیگنڈہ لانچ کرنے کیلئےفنڈنگ لینےلگی
اسکا ثبوت ماما قدیر کی یہ لیک ویڈیو ہے جس نے فرزانہ مجید کومسنگ پرسنز کیلئےپروپیگنڈہ مہم پہ لانچ کیاجسکا اصل مقصد اسے یو ایس لے جانا اور خود بھی یو ایس سیٹل ہو کر بی ایل ائے کیلئے کام کرنا تھا
مگر بی ایل ائے کے انکار پہ یہ ویڈیو اپنے دوستوں کیلئے بنائی
ذاکر مجید کے علاوہ فرزانہ مجید کا ایک اور بھائی بابر مجید عرف فرید بلوچ بھی افغانستان میں ہندوستانی سرپرستی میں بی ایل اے کے دہستگرد کیمپوں میں کام کرتا تھا
کراچی قونصلیٹ پہ خود کش دھماکے کے وقت اسلم اچھو کے ساتھ ساتھ یہی بابر مجید بھی ان دہشت گردوں کے ساتھ لائیو کال پہ تھا
فرزانہ مجید کا یہ بھائی بابر مجید بھی اسلم اچھو کے ساتھ آپس کی گینگ وار میں مارا گیا
سوشل میڈیا پہ اسے سر گرم ایکٹوسٹ کے طور پہ بلوچ تخریبی اکاونٹس یاد کرتے رہے
یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ کیسے ان دہشتگردوں نے امن وامان خراب کرنے کے ساتھ ساتھ خواتین کے ذریعے مسنگ پرسنز کا ڈرامہ پلان کیا اور ماما قدیر کی قیادت میں ان دہشتگردوں کو مسنگ بنا کر ہمدردیاں وصول کرنے کا کھیل کھیلا
چائنیز قونصلیٹ حملے سے پہلے جب اللہ نذر بلوچ کی بیوی اور اسلم اچھو کی بہن افغانستان سے پاکستان فنڈز ٹرانسفر کرتے ہوئے پکڑی گئیں تو ماما قدیر نے اس پہ بھی 👇احتجاج چلایا جسمیں بلوچ عورتوں پہ ریاستی مظالم کا پروپیگنڈہ کیا گیا
یہی ماما قدیر اس ٹارگٹ کلنگ پہ ہمیشہ خاموش رہتا ہے جب بی ایل ائے اور دوسری دہشتگرد بلوچ تنظیمیں ریاست کے وفادار اور محب وطن لوگوں کو نشانہ بناتی ہے

ماما قدیر ان دہشتگرد تنظیموں کا ہی ایک ماوتھ پیس ہے
مسنگ پرسنز کے پروپیگنڈے میں دوسرا نمایاں نام مہارنگ بلوچ جو اپنے باپ عبد الغفار لانگو کے لاپتہ ہونے کاشور مچاتی رہی
مگر اب دیکھتے ہیں کہ عبد الغفار لانگو کی اصل حقیقت کیا ہے
فرزانہ مجید کے امریکہ سٹیل ہونے کے بعد ماما قدیر کو ایک اور چہرہ چاہیے تھا جس کیلئے مہارنگ کو لانچ کیا گیا
اور ایک ویڈیو انگلش سب ٹائٹلز کے ساتھ جاری کی گئی تاکہ بین الاقوامی طور پہ توجہ حاصل کی جا سکے
روتی دھوتی مہارنگ نے جذباتی انداز میں لوگوں کی ہمدردی حاصل کی
مگر اس ویڈیو میں مہارنگ اور ماما قدیر نے یہ نہی بتایا کہ عبد الغفار لانگو نہ صرف بی ایس او۔آزاد کا ایکٹو ممبر رہا تھا بلکہ دہشگرد تنطیم بی ایل ائے کا ایک متحرک کمانڈر بھی تھا
مہارنگ بلوچ کبھی یہ سچ نہی بولے گی کہ اس کا باپ بی ایل ائے کی دہشتگرد کاروائیوں میں شامل رہا
اور آپس کے گینگ وار میں مارا گیا تھا
یہ طے ہے کہ مہارنگ اور ماما قدیر اس کی موت کے سچ سے واقف ہیں
مگر ماما قدیر ہمیشہ اپنے مسنگ پرسنز پروپیگنڈہ میں عبد الغفار لانگو کا نام استعمال کرتا ملے گا
ماما قدیر نے ایک لیکڈ کلپ میں بھی اس بات کا اعتراف کیا
اسی کلپ میں ماما قدیر نے 3 دیگر دہشت گردوں کا تذکرہ کیا
ایک علی شیر کرد بی ایل اے کا کمانڈر جو نواب مری کا قریبی ساتھی تھا
بی ایس او آزاد نے دعوی کیا کہ وہ بھی غائب کیا گیا
ایک امیر بخش ساگر جو نظریہ مارکسزم سے متاثر سٹوڈنٹ رہنما اور بی ایل اے کمانڈر تھا جس کے بارے میں بی ایل ائے نے دعوی کیا کہ وہ روڈ ایکسیڈنٹ میں مارا گیا مگر در حقیقت وہ بھی عبد الغفار لانگو کی طرح گینگ وار میں مارا گیا
اور حمید شاہین بلوچ کالعدم بی ایس او آزاد دہشت گرد تنظیم کا طالب علم رہنما اور بین الاقوامی سطح پر نامزد دہشت گرد تنظیم بی ایل اے کا کمانڈر
ماما قدیر اور دوست ایم علی تالپور نے دعویٰ کیا کہ وہ بھی جبری گمشدگی کا شکار ہوئے
ماماقدیر کی اس لیک ویڈیو میں اعتراف موجود ہے کہ مندرجہ بالا تمام افراد آپس کے گینگ وار میں مارے گئے

مگر جبری گمشدگی کا جھوٹا الزام ریاست پہ لگا دیا گیا

یہاں👇 وہ نواب خیر بخش مری کا اعتراف پڑھ رہا ہے جو اس نے اپنی موت سے پہلے کیا
ماما قدیر سب سچ جاننے کے باوجود ایک پلان کے تحت ریاستی اداروں کے خلاف جبری گمشدگی اور مسنگ پرسنز کا ڈرامہ چلاتا ہے

مہا رنگ بلوچ جو اب ماما قدیر کا پروپیگنڈہ مہرہ تھی اسی کالج میں ایم بی بی ایس کی سٹوڈنٹ تھی جہاں اللہ نذر نے بی ایس او آزاد کی بنیاد رکھی
مہارنگ اب ماما قدیر کی نظر کرم کے بدولت طالب علم رہنما سمجھی جاتی ہےوہ ماما قدیر کے مسنگ پرسنز پروپیگنڈہ کا حصہ بنتی اور بی ایم سی میں طلباء کے مظاہروں کا اہتمام کرتی ہے
وہ مورید بلوچ کے نام سے دہشت گرد تنظیم
بی ایس او -آزاد کی خفیہ وائس چیئرپرسن ہے
فرزانہ مجید کی کامیابی کے بعد خواتین کو پروپیگنڈہ مہم میں لانچ کرنے کا طریقہ باقاعدہ طور پہ رواج پا گیا
جو اللہ نذر کی آئیڈیالوجی کے مطابق عسکریت پسندوں اور دہشتگردوں کیلئے ہمدردی حاصل کرنے کا آلہ کار بنتی ہیں
ایک اور نام کریمہ بلوچ جو اعلانیہ طور پر ریاست کے خلاف بیان بازی کرتی رہی پروپیگنڈہ اور الزام تراشی کا حصہ بنی
اس نےبھی بی ایس او آزاد کالعدم تنظیم کو لیڈ کیا
مگر عورت کارڈ کی بدولت کسی ایکشن سے بچتی رہی
اس نے ماما قدیر کی فراڈ مسنگ پرسن موومنٹ کو کامیابی سے چلایا اور بہت سی بلوچ عورتوں کو تحریک دی کہ وہ اس پروپیگنڈہ تحریک کا حصہ بنیں
ماماقدیراسےجنیوا سوئٹزرلینڈ لے گیاجہاں انہوں نےسوئٹزرلینڈ میں بھارتی را سپانسر شدہ نیٹ ورک کے ساتھ اپنے رابطوں کو پاکستان کے خلاف زیادہ سے زیادہ پروپیگنڈا کرنے کے لئے استعمال کیا
اقوام متحدہ کےانسانی حقوق کونسل کے39 ویں اجلاس میں اس نے پاکستان کوبدنام کیا
سوئٹزرلینڈمیں ’ورلڈ سندھی کانگریس‘جیسےبھارتی را کےزیر سرپرستی چلنےوالے پاکستان مخالف نیٹ ورکس کےساتھ اپنےاور ماماقدیر کےروابط کااستعمال کیا
انکےزیر اہتمام کانفرنسوں میں شریک ہوئی اینٹی پاکستان فورمزمیں تقریریں کی
ہندوستانی میڈیا نےاسےبڑے پیمانے پرکور کیا
فرزانہ مجید کی طرح اس نے بھی ماما قدیر کی فراڈ مسنگ پرسنز موومنٹ کی شہرت کو کینڈا میں اسائلم کیلئے استعمال کیا
وہاں وہ اپنے بھارتی را ہینڈلرز کے ساتھ مل کر اب بھی پاکستان مخالف سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے
اس ویڈیو میں کریمہ بلوچ مودی سے درخواست کر رہی ہے کہ وہ بلوچوں کی جنگ میں ساتھ دئے اور ان کی آواز بنے
آجکل کی شہرت یافتہ جذباتی بلیک میلر حسیبہ قمرانی جو ذاکر مجید (دہشتگرد گروپ بی ایس او آزاد کا سینئر نائب چیرمین ) کیلئے مہم چلا رہی ہے
اسے فرزانہ مجید بی ایل اے سپانسرڈ اور مہارنگ ( دہشتگرد بی ایس او آزاد کی خفیہ وائس چیئرپرسن) کی مکمل حمایت حاصل ہے
مگر وہ نہی بتائے گی اس کا بھائی سلمان قمرانی اور کزن غازین قمرانی ہے سلمان قمرانی براہمداغ بگٹی کی بی آر آئے کیلئے کام کر رہا تھا وہ دہشگرد بی آر پی آزاد کا بھی سرگرم کمانڈر تھا
غازین قمرانی بی ایس او آزاد کا سرگرم رکن تھاوہ نہ صرف ایک ممبر تھا بلکہ کالعدم دہشتگرد گروہ بی ایس او آزاد اسلام آباد زون کا صدر تھا جو اسلام آباد کے تعلیمی اداروں جیسے QAU سے
دہشتگرد تنظیم BLA ۔ UBA & BLF
کیلئےطلبا کی صورت میں افرادی قوت مہیا کرتا تھا
حسیبہ قمرانی کا بھائی سلمان قمرانی اور اس کا کزن غازین قمرانی دونوں ایک ساتھ مردہ حالت میں ملے
یہ دونوں دہشت گرد تھے اور دونوں حربیار کی زیرقیادت بی ایل اے ، مہران کی یو بی اے اور اللہ نذر کی بی ایل ایف کے مابین آپس کے گینگ وار کا شکار ہوئے
اللہ نذر کی لیکڈ وڈیو ان کے آپس کے گینگ وار کا ثبوت ہے جس میں اس نے بی ایل ایف کمانڈر کو بی ایل اے کے تربیتی کیمپ سے اسلحہ چوری کرنے کے لئے کہا اور دھمکی دی کہ وہ بی ایل ایف چھوڑ کر
بی ایل ائے میں شامل ہونے کے لئے نہ سوچے
را فنڈڈ اس دہشت گردی کےپورےنیٹ ورک کو آخر کار بی ایل اے کےبانی ہزار خان مری کے بیٹے اور خود بی ایل ایف کے بانی ڈاکٹر جمعہ خان مری نے بےنقاب کیا جو ماسکو روس میں مقیم ہے
اس نے تسلیم کیا کہ یہ دہشت گردی بلوچستان کے لوگوں کی مدد نہی بلکہ تکلیف کا باعث ہے
ڈاکٹر جمعہ خان مری نے حربیار کی بی ایل اے ، برہمداغ بگٹی کی بی آر اے ، جاوید مینگل کی ایل ای بی ، مہران مری کی ایل بی اے ، اللہ نذر کی بی ایل ایف کی بلوچستان میں بدامنی پھیلانے اور دہشتگردی کے بھارتی را سپانسرڈ ہونے کا انکشاف کیا
ڈاکٹر جمعہ خان مری پاکستان میں ان بلوچ دہشتگرد تنظیموں کی دہشت گردی میں ہندوستان کی مالی اعانت کو بےنقاب کرنے والے ایک مستند فرد کے طور پہ مانے جاتے ہیں
ماما قدیر کی مسنگ پرسنز پروپیگنڈہ کا ایک اور چہرہ سمی بلوچ اور اس کی بہن مہلب ہیں
انہوں نے اپنے والد دین محمد بلوچ کے لئے احتجاج کیا
دین محمد اصل میں کون تھا
دین محمد کی دونوں بیٹیاں سمی بلوچ اور مہلب کو ماما قدیر کے فراڈ "مسنگ پرسنز" کیمپ میں اکثر دیکھا جاتا ہے وہ جذباتی ویڈیوز بناتی ہیں اپنے والد کی گمشدگی کا رونا روتی ہیں لیکن وہ اپنے والد کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی حقیقت کبھی نہی بتائیں گی
ڈاکٹر دین محمد بلوچ بی ایم سی سے میڈیکل گریجویٹ جو کہ کالعدم دہشت گرد بی ایس او آزاد کا گڑھ ہے
وہ نہ صرف کالعدم دہشت گرد گروہ بی ایس او آزاد کے سرگرم رہنما تھے بلکہ وہ بی این ایم کے ممبر بھی تھے جو ریاست کے خلاف پر تشدد دہشت گردی کیلئے اکساتے ہیں
بی این ایم گروپ کی بنیاد طالب علم رہنما غلام محمد بلوچ نے رکھی تھی جس کا تعلق کالعدم دہشتگرد گروپ بی ایس او آزاد سے تھا
ڈاکٹر غلام محمد نے بھی ریاست کے خلاف جنگ کا اعلان کیا تھا
ڈاکٹر دین محمد ڈاکٹر اللہ نذر کا قریبی ساتھی بھی تھا اور اس کے ساتھ 👇دیکھا جاسکتا ہے
دین محمد بلوچ ایک سرگرم دہشت گرد تھا جو پاکستان میں دہشت گرد حملوں کیلئے افراد کے چناو منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بناتا تھا
دین محمد کی بیٹی مہلب بلوچ جو اب ماما قدیر کی فراڈ مسنگ پرسن تحریک میں اکثر دیکھی جاتی ہےاپنے بچپن میں بی ایل ایف کے ڈاکٹر اللہ نذر کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہے 👇
اب مہلب بلوچ کالعدم بی ایس او آزاد کی خاتون رہنما ہے
ایک اور فیمیل جو اپنے "لاپتہ" بھائی راشد حسین کے لئے مہم چلارہی ہے وہ فریدہ بلوچ ہے
مگر راشد حسین کی حقیقت بھی باقی سب سے مختلف نہیں
فریدہ بلوچ کو ماما قدیر کے فیک مسنگ پرسنز کیمپ میں اپنے "لاپتہ" بھائی راشد حسین کے لئے پریس کانفرنس کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے
ماما قدیر اس کی مہم کو سوشل میڈیا پہ بھی پرموٹ کر رہا ہے
مگر راشد حیسن کی حقیقت بھی یہی ہے کہ وہ کالعدم بی ایس او آزاد اور بی این ایم کا رکن اور بی ایل ائے کیلئے دہشتگردی میں ملوث تھا
اسے یو ائے ای میں گرفتار کیا گیا
راشد حسین کراچی میں چینی قونصل خانے پر بی ایل اے کے دہشت گرد حملے کا اہم ملزم

حملے کے دوران وہ چینی قونصل خانے کے قریب موجود تھا اور اس کے بعد وہ شارجہ فرار ہو گیا
اسےمتحدہ عرب امارات کےقانون نافذ کرنے والےاداروں نے گرفتار کیا اور اب بی ایل اے کادہشت گرد نیٹ ورک اسکی رہائی کے لئے مہم چلا رہا ہے
اسےبےگناہ پناہ گزین کےطور پہ متعارف کروایاجاتا ہے
کریمہ بلوچ نےجنیوا سوئٹزرلینڈ میں بھی راشدحسین کی رہائی کیلئےاحتجاج کیا
اس ویڈیو میں 👇 راشد سے متعلق حقیقت واضح ہے
کراچی سے گرفتار ملزمان نے انکشاف کیا کہ راشد نے حملے کو منظم کرنے میں ان کی مدد کی جس کے بعد اس کا سراغ لگا لیا گیا
جمعہ خان مری نے دہشت گردوں کے ان نیٹ ورکس اور ان کے بیرونی فنانسرز کو صیحح معنوں میں بے نقاب کر دیا
You can follow @samiyabh.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled: