؁ ¶ ہیجڑا / کھُسرا ایک گالی ¶؁

ہمارے معاشرے میں ایک کمیونٹی ہے جس کو ہمارا معاشرہ مختلف ناموں سے پُکارتا ہے
کبھی ہیجڑا، کوئی کھُسرا ، کوئی خواجہ سرا، کوئی میٹھے، کوئی خواجہ سرا اور بھی بہت سے ناموں سے
مگر سائنسی لحاظ سے انہیں Transgenders کہتے ہیں
سائنس کی رو سے اگر بیان کروں
تو اس کے معنی درمیانی صنف کے ہیں
مطلب بُنیادی دو صنف یا سیکس کے لوگ پائے جاتے ہیں دُنیا میں
لیکن اگر ان کے علاوہ صنف کے پائے جائیں تو اُنہیں ٹرانس جینڈر کہتے ہیں
اصل میں ہمیں کیسے پتا چلے گا کہ ٹرانس جینڈر اور عام صنف میں کیا فرق ہے
سب سے پہلے تو دو بُنیادی صنف یا سیکس جو ہیں
وہ لڑکا اور لڑکی ہیں
یعنی Male اور Female کے
ان دونوں میں فرق ہر لحاظ سے ہوتا ہے
پہلے تو جسمانی لحاظ سے پھر آتا ہے اندرونی جسمانی لحاظ سے
پھر جذبات سے
مرد اور عورت دو مختلف جنس ہیں
دونوں کے جسم بھی مُختلف ہیں اور دونوں کے جزبات بھی
مردوں کے اندر سپرمز کا سسٹم ہے
عورتوں کے اندر انڈوں کی افزائش ہوتی ہے
ان دونوں کے یہ خاص سسٹم ان کو ایک دوسرے سے جُدا کرتے ہیں
ان دونوں کے اندر یہ سسٹم کا ہونا انہیں مُکمل انسان کہلاتا ہے
یہ دونوں سسٹم کا ایک ساتھ مل کرنا ایک نئی روح جنم دیتا ہے
ہماری بات کا اصل مُدعا خواجہ سرا تھا
اُسی پر بات کرتے ہیں
وہ ایسے کہ ہمارے اردگرد مختلف قسم کے خواجہ سرا پائے جاتے ہیں لیکن ان کی پیدائش کیسے ہوتی ہے
عام مرد اور عورت ہی ایسے خواجہ سرا پیدا کرتے ہیں مگر ان میں کیا فرق ہوتا ہے
اصل میں مرد اور عورت کے ملاپ سے مرد اور عورت ہی جنم
لیتے ہیں لیکن اگر کسی مرد یا عورت کی پیدائش ہو لیکن اُس میں کسی قسم کی خرابی آجائے
خرابی سے مطلب کسی چیز کے بننے کا پروسز مُکمل نہ ہوا ہو اور پیدا کرنے والی ماں کے اندرونی معاملات میں ہی خرابی کے باعث ایسی اولاد میں کمیاں ہوتی ہیں
ایک عورت جو اولاد پیدا کررہی ہے
اُس کے اندرونی معاملات درست نہ ہوں اور بچے کی افزائش ٹھیک نہ ہورہی ہو تو اُس کے کُچھ سسٹم جو ماں کے پیٹ میں بن رہے ہوتے ہیں وہ مکمل طور پر بن نہیں پاتے
کہنے کا مطلب ہے اگر مرد کی پیدائش ہوئی ہے
وہ مکمل بنا ہے مگر اُس کا سپرمز سسٹم مکمل نہ بن سکا ہو
وہ جسمانی طور پر تو مرد ہوگا
مگر اندرونی طور پر وہ خالی ہوگا
اگر عورت پیدا ہوئی ہے اور اُس کا اووریز سسٹم بن نہیں پایا ٹھیک سے تو وہ بھی ایسے ہی ٹرانس جینڈر کہلائے گی
بہت سے ایسے کیسز ہوتے ہیں جن کے جسمانی اعضاء بھی مکمل نہیں ہوپاتی لیکن صرف وہ اعضا جو اُنہیں مرد یا عورت بنانے میں کردار ادا کرتے ہوں
ہر قسم کے ٹرانس جینڈرز پائے جاتے ہیں دُنیا میں
بہت سے ٹرانس جینڈرز پیدائش کے دوران تو معلوم نہیں ہوپاتے مگر بلاغت کی عمر میں اُن کے سیکشوول سسٹم کام نہیں کرتے
یہ تھیں سائنسی وجوہات جو معاشرے میں ٹرانس جینڈرز یا ہیجڑے پیدا کرنے کی وجہ بنتے ہیں
ان سارے معاملات سے ایک بات جان لیں کہ ایسے مرد اور عورت نامکمل ہوتے ہیں اور ان کے پاس جسمانی اعضاء ہونے کے باوجود انہیں مرد یا عورت کے خانے سے نکال دیا جاتا ہے
صرف معاشرہ ہی نہیں بلکہ سائنس بھی
سائنس کے مطابق انسان کے گروپ میں نسل بڑھانے والا آتا ہے
مطلب یہ لوگ انسان کے خانے سے
بھی خارج
لیکن اسلام ایسا نہیں کہتا اور کوئی بھی مذہب ایسا نہیں کہتا
کیونکہ ان کے اندر مرد اور عورت والے جزبات نہیں ہوتے مگر انسانوں والے جزبات ہوتے ہیں
وہ مرد اور خواتین جو مُکمل ہوتے ہیں جنسی اعضو اور جنسی جزبات کے لحاظ سے مگر پھر بھی نسل آگے نہ بڑھا سکیں ابھی تک سائنس نے اُن
کیلیے انسانیت کا خانہ خالی نہیں کیا مگر معاشرے نے ضرور اُن کو انسان کے درجے سے فارغ کردیا ہے
سائنس مگر یہ مانتی ہے کہ جن مرد اور عورت یعنی ٹرانس جینڈر جو ہیں اُن کے انسانی جزبات ہیں مگر انسانوں کی طرح نسل بڑھانے کا نظام نہیں
اب ہم ان کو معاشرے کے لحاظ سے دیکھیں گے
معاشرہ ایسے لوگوں کے بارے میں کیا کہتا ہے
ہمارے مشرقی معاشرے میں خواجہ سرا ناچتے ہیں، معاشرے میں یہ بات عام ہے کہ ان کو پیدائش سے ناچنے کا شوق ہوتا ہے
سائنس اور اسلام کی رو سے اس بات میں کوئی صداقت نہیں
ناچنا گانا ہم نے دیا ہے ان کو
اس معاشرے نے اپنے لُطف کی خاطر ان کے حصے میں
ناچنا گانا لکھ دیا ہے
خواجہ سراؤں کے اندر جنسی جزبات نہیں ہوتے اُنہیں جسمانی لُطف کی ضرورت نہیں ہوتی
اسی لیے ہمارے معاشرے میں مرد حضرات ان کے جسم کو استعمال کرتے ہیں اپنے جسمانی لُطف کیلیے
معاشرے کو لگتا ہے اس کا مرد کو گُناہ نہیں ہوگا اور اُس کی ضرورت بھی ختم ہوجائے گی
اگر اُس انسان میں جنسی جزبات نہیں ہیں
اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ اُن کے اندر انسانی جزبات بھی نہیں ہیں
ہمارے معاشرے میں خواجہ سرا کو خود کمزور بنایا ہے
جسمانی اعضا کی کمی کے باعث اُن میں کمزوریاں پائی جاتی ہیں مگر اس کا بالکل مطلب نہیں کہ وہ کمزور ہیں
ہمارے معاشرے میں کسی کو کمزور ہونے کی گالی دینی ہو تو ہیجڑا یا کھُسرا کہہ کر دل کی تسکین حاصل کی جاتی ہے
ہمارے معاشرے میں ایسے بچے پیدا تو اپنی کمزوریوں کے باعث کیے جاتے ہیں مگر ایسے بچوں کو گالی سمجھ کر پھینک دیا جاتا ہے
پھر ان کی کمیونٹی ان کو اپنے ساتھ پال کر ناچ گانا سکھاتی
ہے اور اسی سے ان کی زندگیاں چلتی ہیں
دو وقت کی روٹی کیلیے ہمارا معاشرہ ان کو نچواتا ہے اور ان کا جسم استعمال کرتا ہے
میرے دماغ میں ایک بات آتی ہے کہ ایک ماں جو نو مہینے اپنے پیٹ میں ایک لڑکی کو رکھتی ہے، ایک لڑکے کو رکھتی ہے اور ایک ہیجڑے کو رکھتی ہے مگر فرق کہاں ہے؟
ماں کی ممتا یا باپ کی شفقت ایسے بچوں کیلیے کیوں مرجاتی ہے
ایسا معاشرہ ہم نے کیسے تیار کرلیا
ہمیں سمجھ کیوں نہیں آتی کہ محبت انسان سے ہے اُس کی اووریز یا سپرمز سے نہیں
کیا میری ماں کو مُجھ سے زیادہ میری اووریز سے پیار ہے
کیا میرے باپ کو میرا خیال نہیں ہے
جناب یہ ایسے سوال ہیں جن کو ٹیبو یعنی ممنوع کہہ کر سائیڈ پر پھینک دیا جاتا ہے مگر کیوں؟
ہم ایسے سوال کیوں نہ کریں
کیا ایک ماں اپنے نو مہینے کیلیے اپنے خون سے سینچے گئے بچے کیلیے سٹینڈ نہیں لے سکتی
کیا ایک باپ اپنی ایسی اولاد کو اپنا نہیں سکتا
شادی یا اگلی نسل اپنی موجودہ نسل
سے زیادہ اہم کیسے ہوگئی
ہیجڑا/ کھُسرا کب تک گالی بن کر ہمارے معاشرے میں یونہی رہے گا
کب ایک ہیجڑے یا کھُسرے کو اُس کی ماں اپنے سینے سے لگا کر اور اُس کا باپ شفقت دے گا
اگر معاشرہ گندہ ہے تو معاشرہ ہم سے
ہم کب بدلیں گے
پڑھے لکھے جاہل ہیں ہم
پی ایچ ڈی والے بھی کھُسرا کہہ کر کسی
کو فخر سے ناچ رہے ہوتے ہیں کہ ہم نے پتا نہیں کیا کمال کردیا ہے
انسان بنو
عورت اور مرد رب نے بنایا ہے
اپاہج اولاد منظور ہے مگر ہیجڑا یا کھُسرا نہیں ورنہ معاشرے میں تھوتھو ہوجانی ہے
رَب کے آگے بھی تو منہ دکھانا ہے
خود کو بدلو
معاشرے خودبخود بدلنے لگے گا
You can follow @NAIRA_266.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled: