یہ جاڑے کی ایک سرد ترین رات تھی۔ ماحول پر مختلف سمتوں سے چلنے والی زمہریری ہواؤں کی دہشت طاری تھی۔ درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے گر چکا تھا اور سردی بے رحم برچھیوں کی طرح جسم میں اُترتی جاتی تھی۔ https://twitter.com/gunsoverbooks/status/1315398704715759622
ایسے میں ایک شبیب کسان ڈر اور سردی کے سبب ہانپتے اور کانپتے ہوئے وجود کو بمشکل گھسیٹتا ہوا اور موسم سے جدوجہد کرتا ہوا ناہموار پگدنڈیوں پر پھسلتا ہوا چلتا جاتا تھا۔
شبابی نشے اور خونی رشتے کی کشش نے اُسے ایک انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کیا تھا۔ اب اُسے رہ رہ کر پچھتاوا ہو رہا تھا مگر اب پچھتاوں کی رمز میں الجھنے کے لیے وقت نہ تھا۔ اُسے ابھی ایک لمبا سفر شل ہوتی ٹانگوں کے سہارے طے کرنا تھا۔
رات اپنی تمام تر سردمہری کے ساتھ بھاگتی چلی جا رہی تھی اور منزل ابھی بہت دور تھی۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا اندھیرے میں گم ہوتا چلا گیا۔
ہجرت کے چند سال بعد تک کچھ تو فکر معاش نے الجھائے رکھا اور کچھ پکڑے جانے کا ایسا ڈر تھا کہ کسی اندھیری رات میں سرحد پھلانگ کر اُس پار کے پہلے گاؤں کی مانوس گلیوں کے ایک در پر دستک دینے کی خواہش کو وہ دل میں دباتا چلا آیا تھا۔
جب اچھی گزر بسر ہونے لگی تو مال مویشیوں کی تعداد میں اضافے کی شہوت اُسے دور دراز کے قریے میں واقع ایک چوہدری کے ڈیرے پر کچھ مویشی دیکھنے کی نیّت سے لے گئی۔ قسمت نے اس کی زندگی میں کچھ اور ہی کھیل کھیلنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
مویشی تو اسے پسند نہ آئے مگر قرمزی دوپٹہ اوڑھے مویشیوں کو چارہ ڈالتی ہوئی چوہدری کی بیٹی کو دیکھ کر دل کچھ اس طور دھڑکا کہ مہنگے داموں مویشی خرید کر چوہدری کے ساتھ اپنے مراسم کا آغاز کیا۔
چند پھیروں اور مڈبھیڑوں کے بعد جب مویشی برائے نام رہ گئے اور گول مٹول چہرہ چارہ ڈالنے کی ذمہ داری سے لاپرواہی برتنے لگا تو ایک سہ پہر اس نے ڈیرے کے عقب میں واقع کنویں کے کنارے لگی چارپائیوں پر بیٹھ کر چائے کا کپ خالی کیا اور اسے زمین پر رکھتے ہی چوہدری کے گھٹنے پکڑ لیے۔
چوہدری نے اٹھا کر گلے سے لگایا اور باقی ماندہ مویشیوں کے ہمراہ اپنی زندگی بھر کی کمائی بھی اُس کے ساتھ روانہ کر دی۔
اس کی زندگی میں قوس و قزح کے رنگ بکھر گئے تھے۔ ہر درخت سر سبز لگنے لگ گیا تھا اور بہار دل میں ٹھہر سی گئی تھی۔
ابتدائی ایام کی چاشنی سے لطف اندوز ہونے کے بعد پت جھڑ کی ایک شام کو دل میں وہ ٹیس پھر سے اٹھنے لگی جو اس کے خیال میں مدھم پڑ جانی چاہیے تھی۔
وہ اس بات سے واقف نہیں تھا کہ ہر انسان کی اپنی جگہ ہوتی ہے اور کوئی شخص کسی دوسرے کا خلا پُر نہیں کر سکتا۔
بہت برسوں اور موسموں پہلے کئی دن سے جاری بارشوں کی ایک شام کو اپنی شادی شدہ بہن کے گھر سے جان بچانے کی غرض سے وہ بھوکا پیاسا چھپتا چھپاتا سرحد کے اس پار آ بسا تھا، اس وعدے کے ساتھ کہ بہت جلد حالات بہتر ہوتے ہی وہ واپس لوٹ آئے گا۔ حالات ٹھیک ہونے کے لیے خراب ہوتے ہیں بھلا؟
وقت کا پہیہ اس طور گھوما تھا کہ اس نے اپنی ایک نئی دنیا بسا لی تھی مگر خونی رشتے کی کشش اور ملنے کی تڑپ اسے مضطرب رکھنے لگی تھی۔ اندرونی کشمکش سے تنگ آ کر بالآخر ایک کانون کی رات کو اُس نے سرحد کے اُس پار جانے کا ارادہ باندھ لیا۔
ڈیرے پر پلی بڑھی گویائی نے بہتیرا دہائی دی۔ اس غنچہ نا شگفتہ کے واسطے دیے جس کی کونپل شبانہ روز اسے کیف و سرشاری میں مبتلا رکھتی تھی اور جو اس کے وجود میں آئے دن اپنی موجودگی کے احساس میں شدت پیدا کر رہا تھا، مگر خونی رشتے کی قوتِ کشش نے سماعتوں پر ان دیکھے قُفل لگا دیے تھے۔
تمام اندیشوں اور وسوسوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنے آنگن کے ادھ کھلے پھول کی آبپاشی کرنے والی گویائی کی فریاد، واویلا اور تراہ تراہ کو خارج از توجہ کرتے ہوئے وہ اماوس کی ایک رات کو اپنی آنکھوں میں امید کے دیپ روشن کیے اپنے گھر سے نکل کھڑا ہوا تھا۔
کانون اول کی اس سرد رات کو جب علاقے کے مکین اپنے نرم و گرم بستروں می دبکے تصوراتی دنیا میں سانس لے رہے تھے تو وہ قدم بہ قدم، تَل بہ تل، ٹیلہ بہ ٹیلہ، ٹیکری بہ ٹیکری اس زمین کی طرف بڑھتا چلا جا رہا تھا جو برسوں پہلے اُس پر تنگ ہو گئی تھی۔
علاقہ اس کا دیکھا بھالا تھا۔ سفر سے پہلے اس نے پورا پلان تشکیل دیا تھا۔ اسے پوری امید تھی کہ کسی کی نظروں میں آئے بغیر وہ سرحد کے اس پار پہنچ جائے گا۔ رات کے گھپ اندھیرے میں چلتا چلتا وہ سرحدی علاقے میں داخل ہوا۔
جھجکتا، بھٹکتا، کھٹکتا، بدکتا، سہمتا اور چھپتا چھپاتا ہوا وہ سرحد کی باڑ پھلانگ کر دشمنوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتا ہوا اپنے بچھڑے ہوئے دیس میں داخل ہو گیا۔
چلتے چلتے ایک پہر بیت گیا تھا اور ہر اٹھتا قدم شل ہو چکی ٹانگوں پر بھاری محسوس ہوتا تھا مگر اعصابی مضبوطی اور پختہ عزم کے سہارے وہ چلتے چلتے آخر اپنے قریے، اپنے گاؤں، اپنی جنت تک پہنچ گیا۔
یہ وہ گلیاں اور کوچے تھے جو اس کے قدموں کی چاپ سے آشنا تھے۔ یہ وہ برزن اور بازار تھے جن کے سینوں میں اس کی بے ہنگام نوجوانی کے قصّے موجزن تھے۔
ان بیادر، کٹھیاروں اور خرمن گاہوں نے مدتوں اور قرنوں اس کے ننھے وجود کو سینچا تھا اور جب محبت چکانے کا وقت آیا تھا تو بے رحم نیزے اور ننگی تلواریں تھامے نفرتوں سے پھٹے ہاتھوں نے اس پر اپنا گھر ہی حرام کر دیا تھا۔
حیف صد حیف! وہ نفرت جو مذہبی تعاصب کا لبادہ اوڑھے اسی سینے میں خنجر اتارنے کی ترغیب دے جس سینے میں آپ کے لڑکپن کے ناکام و ناپاک معاشقوں کی داستانیں موجود ہیں۔ وائے ہو اُن پر جنہوں نے جوان قربتوں میں مذہبی نفرت کی برچھی اتاری۔
اسور کے ابتدائی لمحات میں وہ چلتے چلتے ایک خرابے کے سامنے پہنچ کر رک گیا۔ اس کی آنکھوں میں آشنائی کی رمق ابھری کہ یہیں وہ کلبہ احزاں تھا جس کے آنگن اور دالان میں بھاگتے، گرتے اور کھیلتے ہوئے اس نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ بسر کیا تھا۔
مگر اب یہاں گزشتگاں کی جھلکیاں محض مٹی کے تودوں کے صورت میں موجود تھیں۔

آنگن سے وہ جو پچھلے دالان تک بسے تھے
جانے وہ میرے سائے اب کِس کھنڈر میں ہوں گے
یہیں اُس نے آنکھ کھولنے سے لے کر راہ فرار اختیار کرتے وقت تک اپنی زندگی کے جانے کتنے سال بسر کیے تھے۔ اب یہ ایک ویران کھنڈر تھا اور ڈھے چکی دیوایں ایک دوسرے کو اپنی ہلاکت اور دہاکت کی داستانیں سناتی تھیں۔
مدتوں پہلے برستی بارش اور گرجتے بادلوں میں ان کے دروازے پر ایک خونی دستک ہوئی تھی اور اس کے والدین نے گڑگڑا کر اسے پچھلی دیوار پھلانگ کر اپنی بہن کے گھر بھاگ جانے پر مجبور کیا تھا۔ اس کی بہن کا سسرال علاقے کے بااثر خانوادوں میں سے ایک تھا اور وہاں زور بازو پر گھسنا آسان نہ تھا۔
مخالف مذہب کے پیروکاروں، جن کی علاقے میں اکثریت تھی، کی لڑکی سے عشق کا کھیل کھیلنا آگ سے کھیلنے کے مترادف تھا۔ اس کا انجام ایک نہ ایک روز اسی صورت نکلنا تھا۔
پورے چاند کی رات کو کسی نامہربان بینائی نے انھیں ایک تناور درخت کے پیچھے چھپنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا اور اُس زہریلی گویائی نے وہ بات لڑکی کے خانوادے کی بے رحم شنوائیوں تک پہنچا دی تھی۔
پچھلے دو روز سے اس کا دل اسی دستک کے ڈر سے دہل رہا تھا اور وہ یہ بات اپنے والدین سے چھپا نہ سکا تھا۔
دستک کے شور میں اس نے دیوار پھلانگی اور دوڑتا ہوا اپنی بہن کے سسرال جا کر چھپ گیا۔ گھنٹے بھر بعد کسی فرد نے آ کر مخالفوں کے غیر انسانی اقدام سے آگاہ گیا۔ انھوں نے اس کے والدین کے سینے میں نیزے اتار کر ان کی زندگیوں کا خاتمہ کر دیا تھا اور گلی گلی اس کی بو سونگھتے پھر رہے تھے۔
اس کے گناہوں کی سزا اس کے بے گناہ والدین کو مل چکی تھی اور یہ بات اس کے سینے پر خنجر چلاتی تھی۔ رنج اور طیش کے سبب اس کا سینا پھٹا جاتا تھا۔ وہ باہر نکل کر ان ظالموں کا سامنا کرنا چاہتا تھا مگر اس کی بہن نے زاروقطار روتے ہوئے اسے مر چکے والدین کے واسطے دے کر روکے رکھا۔
چند ہی گھنٹوں بعد اس کے بہنوئی نے اپنے ذرائع کا استعمال کر کے اسے ایک ایسے شخص کے ساتھ روانہ کر دیا تھا جو بارڈر کے چپے چپے سے واقف تھا اور باآسانی اسے سرحد کی دوسری طرف پہنچا سکتا تھا۔ وہ جانا نہ چاہتا تھا مگر اس کے علاہ اب اور کوئی چارہ نہ تھا۔
برستی بارش اور گرجتے بادلوں کی اس رات وہ آنکھوں میں اشک لیے اس تہیے اور وعدے کے ساتھ اپنے وطن سے رخصت ہوا تھا کہ حالات سازگار ہوتے ہی وہ واپس لوٹ آئے گا۔
اور مدتوں بعد وہ اپنی بہن کے دروازے کے سامنے کھڑا جذبات کی روانی میں بہتا چلا جاتا تھا۔ مندمل ہو چکے گھاؤ از سر نو تکلیف دینے لگ پڑے تھے۔ اشکوں میں اٹی آنکھوں سے اس نے دروازے پر مدھم دستک دی تھی۔
ایک مدت کے بعد اُس کی بڑی بہن اس انسان کو گوشت پوست کی حالت میں سامنے دیکھ کر ہکا بکا رہ گئی جس کے چہرے پر وقت اپنے نشان چھوڑ گیا تھا مگر آنکھوں میں وہی ذہانت چمکتی تھی جسے دیکھ کر ارباب حجت اسے شاندار مستقبل کی بشارت دیا کرتے تھے۔
قرنوں کی تھکن اور مسافت آنکھوں میں اتر آئی تھی۔ کتنی ہی دیر شل رہنے کے بعد وہ عورت آگے بڑھی جس کے بالوں میں چاندی اتر چکی تھی اور آنکھوں میں ان گنت دکھوں کے سائے لہراتے تھے۔
وہ لمحوں میں اس ننھے کھلونے کو پہچان گئی تھی جس کو گود میں اٹھائے وہ گلی گلی گھوما کرتی تھی اور جو اسے اپنی جان سے زیادہ عزیز تھا۔
یہ وصال کا وہ لمحہ تھا جس کی آس اور امید میں اس نے ان گنت راتیں ادھ کھلی آنکھوں اور نیم وا دریچوں کے ساتھ کاٹی تھیں کہ شاید ابھی وہ مانوس دستک ہو گی اور بچھڑا ہو لوٹ آئے گا۔ یہی وہ لمحہ تھا جس کی امید میں وہ دُکھوں سے اٹی زندگی میں سانسوں کے کھیل کو جاری رکھے ہوئی تھی۔
ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا تھا اور دونوں زاروقطار روئے۔ آنکھیں اتنی برسیں کہ شاید اتنی تو مدتوں پہلے اس خوں خوار شام کو وہ بارش نہ برسی ہو گی۔

نجانے وہ اک لمحہ قرب کیا تھا
تعاقب میں جس کے زمانے لگے ہیں
برسوں سے جہنم ہوتے کلیجے میں ٹھنڈی پھوار چل پڑی تھی اور گزشتگاں کی یاد سے سلسلہ گفتگو شروع ہوا۔
طویل وقفے کے بعد لوٹنے پر سرزنش بھی ہوئی اور خطرہ مول لے کے آنے پر ملامت بھی۔ برسوں خیر خبر نہ لینے پر ناراضگی کا اظہار بھی کیا گیا اور موت کے منہ میں واپس نہ آنے کے فیصلے کو سراہا بھی گیا۔
رفتگاں کی یاد میں آنسو بھی بہائے گئے اور قرمزی دوپٹے میں ملبوس حسینہ کا سن کر مسرت کا اظہار بھی کیا گیا۔ غرضیکہ کہ مشکلوں، مصیبتوں اور برسوں کے سفر کو ایک طویل گفتگو میں سمیٹنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔
دونوں کو احساس ہی نہ ہوا اور دن ڈھل گیا۔ مختلف انواع کے کھانے تیار ہو چکے تھے۔ اس نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا کہ آج یہ من و سلوی کا ذائقہ دیتا تھا۔ کھانے کے بعد احساس ہی نہ ہوا اور وہ باتیں کرتے کرتے نیند کی وادیوں میں اتر گیا۔
رات کا دوسرا پہر ہو گا جب کسی نے جھنجھور کر اسے بیدار کیا تھا اور وہ،جو مدتّوں بعد طمانیت کی نیند میں اترا تھا،ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا تھا۔ اس کی سماعتوں میں یہ خبر پگھلے ہوئے سیسے کی طرح انڈیلی گئی کہ اس کی واپسی کی خبر شاید کسی نمک حرام اور محسن کش اجیر کے سبب علاقے میں پھیل گئی ہے۔
وقت کا پہیہ پھر اسی جگہ آ رکا تھا۔ پوہ کی اس رات کو اسے پھر سے اپنی زندگی کے لیے راہ فرار اجتیار کرنا تھا۔اب کی بار اسے اپنی زندگی سے زیادہ اس کے انتظار میں سوکھتی آنکھوں اور اس کی راہیں دیکھتی یوئی ان پلکوں کی فکر تھی جو اس کے وجود کے ایک حصے کو اپنے وجود میں سنبھالے بیٹھی تھیں۔
پوٹلی میں بندھے سامان کو اٹھائے پچھلی دیوار پھلانگنے سے قبل ایک آخری نظر اس نے اپنی بہن کی آنکھوں میں ڈالی جو اب بالکل ساکت تھیں۔
بدقسمت ہمشیرہ کو اس بات کا ادراک ہو چکا تھا کہ ہمیشگی کے اس کھیل میں وقت کے بے رحم رویے اور سماج کے خونخوار استخواں فروشوں کے سائے میں پروان چڑھنے والی یہ آنکھیں اب کبھی منتوں، مرادوں اور چڑھاووں کے بعد جنم لینے والے اس بچے کو نہ دیکھ سکیں گی جس کی
جس کی آمد پر سکھیوں سہیلیوں کے ساتھ مل کر وہ رنگ رنگ کے گیت کایا کرتی تھیں۔ ان خالی نظروں کی تاب نہ لا کر اس نے ایک نظر آسمان پر ڈالی اور دیوار پھلانگ کر تاریکی کی تصویر بن گیا۔
اور اب جاڑے کی سرد ترین رات میں زمہریری ہواؤں کی دہشت میں ناہموار پگدنڈیوں پر بھاگتے ہوئے وہ یہاں آنے کے فیصلے پر پچھتا رہا تھا اور اپنے ہونے والے بچے کا سوچ کر پشیمانی کے احساس میں مبتلا تھا مگر اب اس رمز میں الجھنے کا وقت نہ تھا۔
وہ اس بات سے اچھی طرح واقف تھا کہ اس کا پیچھا کیا جائے گا اور گھوڑں پر سوار درندوں کو اس تک پہنچنے میں زیادہ وقت نہ لگے گا۔ اس لیے وہ سستائے بغیر جھاڑیوں میں الجھتا ہوا اپنا سفر جاری رکھے ہوئے تھا۔
وہ سوچ رہا تھا کہ پورے ہوش و حواس میں لمبے پھل والا خنجر دوسروں کی پسلیوں میں اتار کر سکون سے کاروبارِ زندگی میں مصروف ہو جانے والے ہمیشہ مذہب کے گروہ سے ہی کیوں اٹھتے ہیں؟
مذہب تو وحشی درندوں کو سدھارنے کے لیے اور انسانیت کی ایک عظیم بستی تخلیق کرنے کے لیے وجود میں آیا تھا مگر ایسا کیوں ہے کہ تاریخ نے مذہب کے نام پر جتنے لوگوں کو کٹتے دیکھا ہے کسی اور بات پر نہیں دیکھا؟
یہ کیسی منطق ہے کہ بے شمار لوگوں کے لیے دل میں صرف اس لیے نفرتیں پالو کیونکہ وہ جنت میں جانے کے لیے آپ سے مختلف حربے استعمال کر رہے ہیں۔ مذہب تو جوڑنے کے لیے بنا تھا مگر اس نے دوام کی تصویر سرخ دھبوں سے بھر دی یے۔
مذہب تو پیار سکھاتا ہے مگر تقلید میں اندھے اور طاقت کے نشے میں چور کچھ انسانوں نے مذہب کی آڑ میں انسانیت کی دھجیاں کچھ اس انداز سے اڑائی ہیں کہ صدیوں زمین ان ظلمتوں کا سوچ کر آنسو بہاتی رہے گی۔
چلتے چلتے اب کئی گھنٹے ہونے کو آئے تھے۔ سردی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا تھا۔ بازو سکڑ چکے تھے اور ٹانگیں اکڑ چکیں تھیں۔ مگر جذبات کی گرمی کے سہارے سفر جاری تھا۔ رات کے سناٹے میں رات کے پکھیرو بول رہے تھے اور وہ چلتا جا رہا تھا۔
دفعتاً رات کے مہیب سناٹے میں ہوا کے دوش پر سفر کرتی ہوئی گھوڑوں کی ہنہناہٹ اس کی سماعتوں کو چیرتی ہوئی وجود میں داخل ہوئی۔
پہلے پہل تو وہ ایہام میں مبتلا ہوا مگر جب دوبارہ یہی ہنہناہٹ سنی تو اس کے ذہن میں جرسِ خطر بجی اور ارتجالاً وہ سرحدی باڑ کی طرف دوڑ پڑا جو محض ایک میل کے فاصلے پر تھی۔ ہر گزرتی پل اور گھڑی کے ساتھ آوازوں میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
۔ گھوڑوں کی آواز میں اب کھوجی کتوں کی آواز بھی شامل ہو چکی تھی۔ ابھی تک شاید وہ نظر میں نہیں آیا تھا اس لیے وہ دوڑتا چلا گیا۔ اس کے ذہن میں اس وقت اپنے گھر کے آنگن میں بیٹھ کر بھلی بھلی دھوب سیکنے کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔ وہ جلد از جلد سرحدی باڑ تک پہنچنا چاہتا تھا جو
جو آنکھوں کے سامنے تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر تھی۔ اسے انسانی شور اور غیر انسانی لہجے میں ادا کیے گئے چند کلمات کی آواز آئی۔ اسے دیکھ لیا گیا تھا اور پیچھا کرنے والوں میں سرحدی علاقوں میں گشت کرنے والے بھاری بوٹ بھی شامل ہو چکے تھے۔
اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو پانچ یا چھ سو گز کے فاصلے پر اسے روشنیوں کا ایک دائرہ پوری رفتار سے اپنی طرف آتا نظر آیا۔ اسے ایک دوڑ لگانی تھی، ایک آخری دوڑ۔ یہ دوڑ صرف زندگی اور موت کے درمیان ہی نہیں تھی۔
یہ دوڑ اس سہاگن کے لیے تھی جس کی قرمزی دوپٹے والی جھلک اس کے ذہن پر ہمیشہ کے لیے نقش ہو کر رہ گئی تھی اور جو ابھی بھی اس کے دل میں ہیجانی کیفیت پیدا کرتی تھی۔
یہ دوڑ اس پھول کو یتیم ہونے سے بچانے کے لیے تھی جو ابھی اس دنیا میں آیا ہی نہیں تھا اور جس کی خوشی پوہ کی راتوں میں اس کے جُسے کو عرق آلود کرتی تھی۔
یہ دوڑ مذہبی نفرتیں پھیلانے والے ان جابروں، سفاکوں اور سنگدلوں کو ہرانے کے لیے تھی جنہوں نے بیشمار زندگیوں اور امنگوں کے چراغ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گل کر دیے تھے۔
سرحدی باڑ ابھی بھی تقریباً آٹھ سو میٹر کے فاصلے پر تھی اور تعاقب کرنے والے محض پانچ چھ سو گز کے فاصلے پر۔ اس نے ایک نظر تاریکی میں گم آسمان کو دیکھا اور پوری قوت سے سرحدی باڑ کی طرف دوڑ لگا دی۔

ختم شد
Yeh fiction ki dnya mien phla nakam qadam hai islye bht garbar ho gyi hai aur ghltiyan to bahrhal beshumar hon ge. Mgr kia pta ek din kuch acha b lkha jaye ya kia pta kbhi na lkha jye. Mgr kher, jo lkha hai wo lkha hai.
You can follow @gunsoverbooks.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled: