آن دی ریکارڈ، آف دی ریکارڈ

نوازشریف کے متعلق مشرف کےبعض جملےتو ریکارڈ پر ہیں
مثلا 12اکتوبر1999 کارروائی کےبعد تجزیہ کاروں اور کالم نگاروں سےپہلی میٹنگ میں کہاتھا
اس نےمجھے دھکا دیا جو مجھے دھکا دےگا میں اُسے دھکا دےدونگا(مطلب اس نےمجھے نکالنےکی کوشش کی میں نے اسےنکال باہر کیا)
کچھ عرصہ بعد BBC کے انٹرویو میں مشرف نے اسی بات کو اور انداز میں دہرایا:
وہ مجھے برخاست نہ کرتا تو آج بھی وزیراعظم ہوتا۔
حال ہی میں وزیر داخلہ اعجازشاہ نے عارف نظامی سےانٹرویو میں کہا تھا
نوازشریف کےگرد 6 7 لوگ تھے(وہ انہی کی سنتا تھا) یہ نہ ہوتےتو
وہ چوتھی بار بھی وزیراعظم ہوتا۔
ایک اورمرحلے پرمشرف نےکہا
وہ میرادشمن نمبر1 ہےلیکن سکیورٹی رسک نہیں
نوازشریف کےمتعلق ایک اور موقع پرمشرف نےکہا:
میرے ہوتےہوئے وہ واپس نہیں آسکتا وہ آیا تو میں نہیں ہوں گا
پھر ساری قوم نےدیکھاکہ نوازشریف مشرف کی موجودگی میں پاکستان آئےاور وزیراعظم بھی بنے
اور مشرف پاکستان سےبھاگا
دوستوں کےحلقے میں کہی گئی بعض باتیں پردےسے چھن چھن کر باہر آجاتی ہیں
لیکن آف دی ریکارڈ رہتی ہیں۔
12اکتوبر99 کےبعد کافی عرصہ نوازشریف کےخلاف مشرف کا غیظ وغضب بہت شدیدرہا۔
وہ دوستوں میں کہاکرتا:
میں اسے سیاسی ومعاشی لحاظ سےتباہ کرنےکےعلاوہ نفسیاتی و اعصابی طور پر مفلوج بھی کردونگا۔
انہی میٹنگز میں شاہ سےزیادہ شاہ کےوفادار یہ تجویز بھی پیش کرتےکہ
طیارہ سازش کیس میں نوازشریف کو سزائےموت ہوجائے تو چھوٹےصوبوں میں اس تاثر کو ختم کرنےمیں مددملےگی کہ
پھانسیاں چھوٹےصوبےسےتعلق والی قیادت ہی کا مقدر ہیں
نوازشریف کی خوش قسمتی کہ کیس کی سماعت کرنےوالی کراچی کی عدالت نے
انہیں موت کےبجائے عمرقید کامستحق سمجھا
اور شہبازشریف، شاہدخاقان، سیف الرحمن، رانامقبول اور سعیدمہدی سمیت تمام شریک ملزمان کو بےگناہ قرار دے دیا۔

طیارے کےاغوا کی دنیابھر میں یہ پہلی اور انوکھی مثال تھی
جس میں ایک ہی شخص منصوبہ ساز بھی تھا اور اتنے بڑےآپریشن کو کنٹرول بھی کررہاتھا
عدالت کےفیصلےکےخلاف دونوں فریق اپیل میں چلےگئے
نوازشریف عمرقید کےخلاف درخواست گزار جبکہ استغاثہ مجرم کوسزائےموت کامستحق قراردےرہاتھا
یہی موقع تھاجب نوازشریف کےغیرملکی دوست بروئےکار آئےاور نوازشریف فیملی سمیت جلاوطن ہوگئے
ان دوستوں میں سعودی ولی عہدعبداللہ بن عبدالعزیز سرفہرست تھے
12اکتوبر1999 کی شام حراست میں لئےجانے کےبعد سے 10دسمبر2000 کو جلاوطنی تک
راولپنڈی میس، پھر کشمیر پوائنٹ مری پر گورنر ہاؤس کے زیریں حصے،
اس کےبعد کراچی کی لانڈھی جیل اور اٹک قلعےکی جیل میں ان پر جو بیتی،
کیا وہ نوازشریف کو نفسیاتی و اعصابی طور پر مفلوج کرنےکی حکمت عملی کا حصہ تھا؟
12 اکتوبر 1999 کی شام وزیراعظم ہاؤس سے حراست میں لئے جانے کےبعد انہیں پشاور روڈ اور ریس کورس پارک کے قریب ایک میس میں پہنچا دیاگیا۔
اسی شب جنرل محمود، جنرل احسان اور جنرل اورکزئی تشریف لائے۔
اس ملاقات میں جو کچھ ہوا وہ کہانی پھر سہی..
مختصر یہ کہ اس ملاقات کا اختتام خاصا تلخ تھا۔
سابق وزیراعظم کا مسکن یہ کمرہ باہر کی روشنی سے مکمل طور پر محروم تھا۔
کھڑکیوں کے شیشے سیاہ کردیئے گئےتھے
اگلی صبح ایک باوردی ملازم دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا
اس کےباقی ساتھی دروازے پر کھڑے رہے۔ اس نے ناشتے کی ٹرے میز پر رکھی اور خاموشی سے باہر نکل گیا
دروازہ پھر مقفل ہوگیا تھا۔
کبھی یوں ہوتا کہ دروازہ کھلتا، کھانے کی ٹرے اند ردہلیز کے ساتھ رکھ کر دروازہ بند کردیا جاتا۔
کافی دن اسی عالم میں گزر گئے۔
یہ کتنے دن تھے اس کا حساب رکھنا تو مشکل تھا مگر
ایک دن دروازہ کھلا اور ایک درمیان درجے کے افسر نے موبائل فون میاں صاحب کی طرف بڑھاتے ہوئےکہا
یہ آپ کی کال ہے۔
دوسری طرف اباجی تھے
بڑے میاں صاحب کو اندازہ تھا کہ لمبی بات کا وقت نہیں
چنانچہ علیک سلیک کے بعد براہ راست کام کی بات کی طر ف آگئے
نواز گھبرانا نہیں۔
اللہ سےدعا کرتےرہا کرو، ہم مقابلہ کریں گے۔ ادھر سےکسی جواب سے پہلے کال ختم ہوگئی۔ معزول وزیراعظم کابیرونی دنیا سےیہ پہلا رابطہ تھا۔
کوئی 40دن اس عالم میں گزرگئے۔
جس کےبعد کراچی میں طیارہ اغوا کیس کی سماعت شروع ہو گئی۔
جہاز کے اس سفر کی روداد بھی دلچسپ تھی۔
اس کیلئے ایک چھوٹا سا طیارہ استعمال کیاجاتا
جس کی رفتار بھی کم تھی اور اسے تیل بھروانےکیلئے ملتان میں اترناپڑتا۔
یوں پنڈی سےکراچی کا سفر کوئی 7گھنٹے لےجاتا
ایک دن تو یہ بھی ہوا کہ میاں نوازشریف کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنانے کے علاوہ
ان کی ٹانگیں بھی سیٹ کے ساتھ باندھ دی گئیں۔
یہ خبر عام ہوئی تو احباب کی ایک غیر رسمی میٹنگ میں جناب نواب زادہ نصر اللہ خاں (مرحوم) سے رہا نہ گیا۔
وہ اسے Too Much قرار دیتے ہوئے سخت احتجاج کر رہے تھے۔
جس پر سرکار کےحامی ایک اخبار نویس نے (جو ایک کالج میں تدریسی فرائض انجام دہی کے ساتھ باقاعدگی سے دفتر آکر کالم بھی لکھتے اداریہ نویسی بھی کرتے) اسے سکیورٹی کا تقاضا قرار دیا۔
جس پر نواب زادہ صاحب مزید بھڑک اٹھے اور کہا:
کیا اس بات کا خطرہ ہے کہ ملزم جہاز سے باہر چھلانگ نہ لگا دے؟
ڈاکٹر سعیدالہی کی کتاب ''جلاوطن وزیراعظم‘‘ میں بھی دلچسپ واقعہ درج ہے
نوازشریف کےوکیل خواجہ نوید نےجج کو مخاطب کرتےکہا:
جناب عالی! خدانخواستہ جہاز حادثےکا شکار ہوجائےتو ہتھکڑیاں لگے میرےموکل کی جان کیسےبچائی جاسکےگی؟
اس پر جج صاحب بھی مسکرا دیئےاور میاں صاب بھی ہنسی ضبط نہ کرسکے۔
You can follow @Zubair_Ul_Hasan.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled: