یہ شاید 2012 کی بات ہے۔ قصور میں اپنے رشتہ داروں سے مل کر اپنی فیملی کے ساتھ براستہ فیروزپور روڈ لاہور واپس جا رہا تھا۔ گاڑی میں میرے ساتھ گھر کی تین خواتین اور دو بچے تھے۔ قصور سے باہر نکلتے ہی سڑک پرکئی گیس سٹیشنز ہیں، ان میں سے کسی ایک سےگاڑی میں گیس بھروائی اورسفرشروع کیا۔
https://twitter.com/SeemeGRaja74/status/1314152152563101702

اگلے روز دفتر پہنچ کر اخبار دیکھا تو خبر تھی کہ گزشتہ شام لگ بھگ اسی وقت جب میں نے گیس بھروائی تھی، انہی گیس سٹیشنز میں سے کسی ایک پر کھڑی ایک گاڑی سے چار پانچ سالہ بچہ گن پوائنٹ پر چھین لیا گیا۔ وہ خاندان قصور میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے آیا تھا۔ خبر پڑھ کر مجھے احساس ہوا کہ

پاکستان شریف لوگوں کے لئے انتہائی غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے۔ اگر جرائم پیشہ افراد اس وقت اس علاقے میں شکار تلاش کر رہے تھے تو وہ شکار میرا بیٹا یا بھتیجی بھی تو ہو سکتے تھے جو اس وقت گاڑی میں موجود تھے۔ اس اخباری خبر کے مطابق نہ تو اس خاندان کی کسی سے دشمنی تھی اور نہ ہی وہ

اغوا کاروں کو پہچانتے تھے۔ گن پوائنٹ پر موبائل فون یا گاڑی کا چھن جانا ان دنوں معمول کی بات تھی اور عام شہری اس قسم کے نقصان کے بعد پولیس اور ریاستی انتظام کو چار گالیاں بک کر دل کابوجھ ہلکا کر لیتے تھے لیکن جب بات گن پوائنٹ پر اولاد کے چھن جانےتک آن پہنچے تو شریف شہری کسی بھی

حد تک جا سکتا ہے۔ چنانچہ میں نے خاندان کے ساتھ باہر نکلتے وقت ساتھ رکھنے کے لئے پستول کا لائسنس بنوانے کا فیصلہ کیا۔ ابھی لائسنس سے متعلق معلومات اکٹھی کر ہی رہا تھا کہ اس وقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے ایک حکم کے زریعے اسلحےکے نئے لائسنس کے اجراء پر پابندی لگا دی اور یوں

پستول والا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ گاڑی میں البتہ میں نے ایک دو ایسے اوزار رکھنا شروع کر دیے جنہیں کسی بھی آزمائش کے وقت ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکے کیونکہ میں یہ جانتا تھا کہ آزمائش کے وقت مجھے اپنی مدد آپ کے تحت ہی کچھ کرنا ہو گا۔
کسی اغواکار کے ہاتھ میں پستول دیکھ کر اپنی اولاد اس امید پراسکے حوالےنہیں کی جا سکتی کہ تھانے میں رپورٹ درج کروانےکے بعد پنجاب پولیس آپکا بچہ بازیاب کروا کےمجرمان کو قرارواقعی سزا دلوائے گی۔ اپنی جان، مال عزت و آبرو کی حفاظت ہر شہری پر لازم ہے۔ پنجاب پولیس پر نہ مجھے 2020 میں

اعتبار ہے اور نہ ہی 2012 میں تھا۔ میرا تھوڑا بہت اعتبار 2011 میں اس وقت اٹھ گیا تھا جب ایک ڈی آئی جی رینک کے پولیس افسر کے ساتھ طویل نشست کے دوران پولیس اصلاحات کے بارے میں سوال کرنے پر جواب موصول ہواکہ دیکھیں عمیر صاحب! یہ ہماری پولیس نو آبادیاتی دورکی پیداوار ہے۔ یہ جس مقصد

کے لئے بنائی گئی تھی وہ کام پورا کرتی ہے۔ باقی جو اصلاحات والا معاملہ ہے، یہ ہمارے لائف ٹائم میں تو ممکن نہیں ہے۔
اگلے دو سال نہ تو اسلحہ لائسنس کے اجراء سے پابندی ہٹی اور نہ ہی اللہ نے کسی آزمائش میں ڈالا، الحمدللہ!
میں اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لے کر دیار غیر میں آباد ہو گیا۔
اگلے دو سال نہ تو اسلحہ لائسنس کے اجراء سے پابندی ہٹی اور نہ ہی اللہ نے کسی آزمائش میں ڈالا، الحمدللہ!
میں اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لے کر دیار غیر میں آباد ہو گیا۔

پاکستان سےزینب جیسےبچوں کی خبریں آنےپر اپنےبھتیجے، بھتیجیوں، بھانجے، بھانجیوں بلکہ یوں کہیےکہ پاکستان کےسارےبچوں کی فکر البتہ رہتی ہے۔ یہ جو @Shahidmasooddr نےڈارک ویب والا معاملہ اٹھایا تھا اسکی تحقیقات ضرور ہونی چاہئیں۔ جوکوئی بھی ان تحقیقات میں رکاوٹ بناہےوہ قوم کامجرم ہے۔

اور یہ جو @ZaidZamanHamid صاحب قانون کی پاسداری کرنے والے افراد کے لئے اسلحہ لائسنس جاری کرنے کی بات کرتے ہیں تو میری رائے میں یہ بالکل درست ہے۔ یا تو ریاست مجرموں کو لگام ڈالے اور شہروں، گلیوں، بازاروں سے ناجائز اسلحہ ختم کروائے۔ اور اگر ریاست اس میں ناکام رہتی ہے تو پھر

قانون پسند شہریوں کو بھی اپنی حفاظت کے لئے اسلحے کا لائسنس جاری کیا جائے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ لوگوں کا جان و مال، عزت و آبرو محفوظ نہ ہو اور وہ ریاستی اداروں کی نا اہلی کے باعث ناجائز اسلحہ رکھنے والے مجرموں کے ہاتھ یرغمال بنے ہوئے ہوں۔

ایسے ممالک جہاں پولیس کا محکمہ فعال اور متحرک ہے، جرم ہونے کے بعد عرق ریزی سے مجرم تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے، نہ صرف یہ بلکہ اعداد و شمار کے مطابق پیش گوئی کر کے جرائم کو وقوع پزیر ہونے سے پہلے ہی ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، عدالتیں انصاف دیتی ہیں، مقتولین کی مائیں اس خوف

سےعدالتوں سےمقدمہ واپس لینےکی التجانہیں کرتیں کہ ان کی جوان بیٹیاں ہیں، جہاں طاقت کےنشےمیں کوئی سیاستدان سرعام چوراہےپرکھڑےباوردی سپاہی کوگاڑی سےکچل کر #سیاہ_سی_عدالت سےعدم ثبوت کی بناپرباعزت بری نہیں ہوتا، وہاں اگرحکومتیں شہریوں کو اپنے ذاتی دفاع کے لئے اسلحہ نہ بھی رکھنے دیں

تواس سےشہریوں کوکوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ پولیس اور عدالتیں اور سب سےبڑھ کر ریاستیں عوام کےجان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری لیتی ہیں اورعوام کواحساس تحفظ دیتی ہیں۔ جیسا کہ یہاں آسٹریلیا میں ہمیں اسلحہ صرف اورصرف شکاریا شوٹنگ رینج پراپنا شوق پورا کرنے کےلئے رکھنے کی اجازت ہے۔

آج یہ سوچتا ہوں کہ آٹھ سال قبل پیش آنے والے ایک واقعے کی بنیاد پر میں پستول کا لائسنس بنوانے اس خیال کے پیش نظر چل پڑا تھا کہ اس روز قصور کے نواح میں اغوا ہونے والا بچہ میرا بھی ہو سکتا تھا، تو ریاست پاکستان کے بڑے جن کے پاس اقتدار اور طاقت ہے، وہ کبھی یہ کیوں نہیں سوچتے کہ

کوڑے کے ڈھیر پر ملنے والی جنسی زیادتی کا شکار مسخ شدہ لاش انکے اپنے بچے کی بھی تو ہو سکتی ہے!! اگر آج 2020 میں بھی بچے ویسے ہی اغوا ہو رہے ہیں جیسے 2012 میں ہو رہے تھے، کوڑے کے ڈھیروں سے بچوں کی مسخ شدہ کٹی پھٹی لاشیں ویسے ہی مل رہی ہیں جیسے آٹھ سال قبل ملتی تھیں تو قوم نے

کون سی تبدیلی کےلئے ماتھا پھوڑا ہے؟؟ کون ہے اس حکومت میں انسانی حقوق کا وزیر؟ کیا @ShireenMazari1 کو معلوم ہے کہ اب تک کتنی @ImaanZHazir بھوکے کتوں نے بھنبھوڑ ڈالی ہیں؟ یہ @fawadchaudhry صرف مولویوں کو تیلی لگانے کے لئے حکومت میں آیا ہے؟ یہ @SHABAZGIL اور @Fayazchohanpti ٹائپ

ترجمانوں کی فوج ظفر موج @ImranKhanPTI کے طلال چوہدری اور دانیال عزیز ہیں کہ جن کا کام میڈیا اور سوشل میڈیا پر رونق میلہ لگائے رکھنا ہے؟ @Ali_MuhammadPTI نے البتہ اب تک ثابت کیا ہے کہ وہ ایک درد دل رکھنے والا انسان ہے۔

عمران خان صاحب! @ImranKhanPTI آپ تبدیلی کا نعرہ لگا کر وزیر اعظم بنے ہیں۔ یہ نعرہ جب پاکستانی قوم سن رہی تھی تب اللہ بھی سن رہا تھا۔ اللہ آپ سے تبدیلی کے بارے قیامت کے دن پوچھے گا، پاکستانی قوم آپ سے اگلے الیکشن میں ہی پوچھ لے گی۔ بچوں سے زیادتی کی وارداتوں میں دو سال میں

"چھنکنا" تبدیلی آئی ہے۔ کمسن بچوں کا باپ ہونے کے ناطے میرا سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ پاکستان بچوں کے لئے انتہائی غیر محفوظ ملک ہے۔ اگر آپکی حکومت اس معاملے میں تبدیلی لانے میں ناکام رہتی ہے تو پھر کم از کم مجھ جیسے اوورسیز پاکستانیوں سے یہ توقع مت رکھیے گا کہ ہم اپنے بچوں کو

پاکستان لے کر آئیں گے۔ اوورسیز پاکستانیوں کے نام پر سیاست کرنا، ان سے ڈونیشنز لینا، انکے بھیجے ہوئے زرمبادلہ پر فخر کرنا بہت آسان ہے لیکن انہیں پاکستان کے نظام سے مطمئن کرنا بہت مشکل ہے۔ اور آپ یہ سب بخوبی جانتے ہیں۔