ایک پراڈو کے دروازے پہ ڈینٹ تھا اسکے مالک نے ڈینٹ والا دروازہ کبھی مرمت نہیں کرایا
کوئی پوچھتا تو وہ بس یہی کہتا "زندگی کی دوڑ میں اتنا تیز نہیں چلنا چاہیے کہ کسی کو اینٹ مار کر گاڑی روکنی پڑے"
سننے والا اسکی آنکھوں میں نمی دیکھ کر قدرے حیران ہوتا اور پھر سمجھتے یا نہ سمجھتے ہوۓ+
کوئی پوچھتا تو وہ بس یہی کہتا "زندگی کی دوڑ میں اتنا تیز نہیں چلنا چاہیے کہ کسی کو اینٹ مار کر گاڑی روکنی پڑے"
سننے والا اسکی آنکھوں میں نمی دیکھ کر قدرے حیران ہوتا اور پھر سمجھتے یا نہ سمجھتے ہوۓ+
سر ہلا دیتا
سرگوشی سنو گے یا اینٹ سے بات سنو گے؟
ایک نوجوان بزنس مینیجر اپنی نئی پراڈو میں دفتر سے DHA میں واقع گھر جاتے ہوئے ایک پسماندہ علاقے سے گزرا جو مضافات میں ہی واقع تھا
اچانک اسنے ایک چھوٹے بچے کو بھاگ کر سڑک کی طرف آتے دیکھا تو گاڑی آہستہ کردی
مگر پھر بھی اُسنے بچے کو+
سرگوشی سنو گے یا اینٹ سے بات سنو گے؟
ایک نوجوان بزنس مینیجر اپنی نئی پراڈو میں دفتر سے DHA میں واقع گھر جاتے ہوئے ایک پسماندہ علاقے سے گزرا جو مضافات میں ہی واقع تھا
اچانک اسنے ایک چھوٹے بچے کو بھاگ کر سڑک کی طرف آتے دیکھا تو گاڑی آہستہ کردی
مگر پھر بھی اُسنے بچے کو+
کوئی چیز اچھالتے دیکھا
ٹھک کی آواز کے ساتھ ایک اینٹ اس کی نئی گاڑی کے دروازے پر لگی اس نے فوراً بریک لگائی اور گاڑی سے باہر نکل کر دروازہ دیکھا جس پر کافی بڑا ڈینٹ پڑ چکا تھا
اسنے غصے سے ابلتے ہوئے بھاگ کر پتھر مارنے والے بچے کو پکڑا اور زور سے جھنجھوڑا
“اندھے ہو؟پاگل کی اولاد+
ٹھک کی آواز کے ساتھ ایک اینٹ اس کی نئی گاڑی کے دروازے پر لگی اس نے فوراً بریک لگائی اور گاڑی سے باہر نکل کر دروازہ دیکھا جس پر کافی بڑا ڈینٹ پڑ چکا تھا
اسنے غصے سے ابلتے ہوئے بھاگ کر پتھر مارنے والے بچے کو پکڑا اور زور سے جھنجھوڑا
“اندھے ہو؟پاگل کی اولاد+
تمہارا باپ اسکے پیسے بھرے گا؟" وہ زور سے دھاڑا
میلی کچیلی شرٹ پہنے بچے کے چہرے پر ندامت اور بے چارگی کے ملے جلے تاثرات تھے
"سائیں،مجھے کچھ نہیں پتہ میں اور کیا کروں؟
میں ہاتھ اٹھا کر بھاگتا رہا مگر کسی نے گل نئیں سنی."
اس نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں کچھ کہا
اچانک بچے کی آنکھوں سے+
میلی کچیلی شرٹ پہنے بچے کے چہرے پر ندامت اور بے چارگی کے ملے جلے تاثرات تھے
"سائیں،مجھے کچھ نہیں پتہ میں اور کیا کروں؟
میں ہاتھ اٹھا کر بھاگتا رہا مگر کسی نے گل نئیں سنی."
اس نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں کچھ کہا
اچانک بچے کی آنکھوں سے+
آنسو ابل پڑے اور سڑک کے ایک نشیبی علاقے کی جانب اشارہ کیا "ادھر میرا ابا گرا پڑا ہے
بہت وزنی ہے
مجھ سے اُٹھ نہیں رہا
میں کیا کرتا سائیں؟
بزنس ایگزیکٹو کے چہرے پر ایک حیرانی آئی اور وہ بچے کے ساتھ ساتھ نشیبی علاقے کی طرف بڑھا تو دیکھا ایک معذور شخص اوندھے مُنہ مٹی میں پڑا ہوا تھا+
بہت وزنی ہے
مجھ سے اُٹھ نہیں رہا
میں کیا کرتا سائیں؟
بزنس ایگزیکٹو کے چہرے پر ایک حیرانی آئی اور وہ بچے کے ساتھ ساتھ نشیبی علاقے کی طرف بڑھا تو دیکھا ایک معذور شخص اوندھے مُنہ مٹی میں پڑا ہوا تھا+
اور ساتھ ہی ایک ویل چیئر گری پڑی تھی
ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ شائد وزن کے باعث بچے سے ویل چیئر سنبھالی نہیں گئی اور نیچے آگری اور ساتھ ہی پکے ہوئے چاول بھی گرے ہوئے تھے جو شاید باپ بیٹا کہیں سے مانگ کے لائے تھے
"سائیں، مہربانی کرو. میرے ابے کو
اٹھوا کر کرسی پر بیٹھا دو”
اب بچہ+
ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ شائد وزن کے باعث بچے سے ویل چیئر سنبھالی نہیں گئی اور نیچے آگری اور ساتھ ہی پکے ہوئے چاول بھی گرے ہوئے تھے جو شاید باپ بیٹا کہیں سے مانگ کے لائے تھے
"سائیں، مہربانی کرو. میرے ابے کو
اٹھوا کر کرسی پر بیٹھا دو”
اب بچہ+
بچہ باقاعدہ ہچکیاں لے رہا تھا
نوجوان ایگزیکٹو کے گلے میں جیسے پھندا سا لگ گیا
اسے معاملہ سمجھ آگیا اور اپنے غصے پر بہت ندامت محسوس ہورہی تھی
اس نے اپنے سوٹ کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھ کر پوری طاقت لگا کر کراہتے ہوئے معذور شخص کو اٹھایا اور کسی طرح ویل چئیر پر بٹھا دیا
بچے کے باپ+
نوجوان ایگزیکٹو کے گلے میں جیسے پھندا سا لگ گیا
اسے معاملہ سمجھ آگیا اور اپنے غصے پر بہت ندامت محسوس ہورہی تھی
اس نے اپنے سوٹ کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھ کر پوری طاقت لگا کر کراہتے ہوئے معذور شخص کو اٹھایا اور کسی طرح ویل چئیر پر بٹھا دیا
بچے کے باپ+
کی حالت غیر تھی اور چہرہ خراشوں سے بھرا پڑا تھا
وہ بھاگ کر اپنی گاڑی کی طرف گیا اور بٹوے میں موجود تمام ہزار کے نوٹ نکالے اور کپکپاتے ہاتھوں سے معذور کی جیب میں ڈال دیے
پھر ٹشو پیپر سے اس کی خراشوں کو صاف کیا اور ویل چیئر کو دھکیل کر اوپر لے آیا
بچہ ممنونیت کے آنسو سے اسے دیکھتا+
وہ بھاگ کر اپنی گاڑی کی طرف گیا اور بٹوے میں موجود تمام ہزار کے نوٹ نکالے اور کپکپاتے ہاتھوں سے معذور کی جیب میں ڈال دیے
پھر ٹشو پیپر سے اس کی خراشوں کو صاف کیا اور ویل چیئر کو دھکیل کر اوپر لے آیا
بچہ ممنونیت کے آنسو سے اسے دیکھتا+
رہا اور پھر باپ کو لیکر اپنی جھگی کی طرف چل پڑا
اس کا باپ مسلسل آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتے ہوئے نوجوان کو دعائیں دے رہا تھا
نوجوان نے بعد میں ایک خیراتی ادارے کے تعاون سے جھگی میں رہنے والوں کیلیے ایک جھگی سکول کھول دیا اور آنے والے سالوں میں وہ بچہ بہت دے دوسرے بچوں کے ساتھ پڑھ+
اس کا باپ مسلسل آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتے ہوئے نوجوان کو دعائیں دے رہا تھا
نوجوان نے بعد میں ایک خیراتی ادارے کے تعاون سے جھگی میں رہنے والوں کیلیے ایک جھگی سکول کھول دیا اور آنے والے سالوں میں وہ بچہ بہت دے دوسرے بچوں کے ساتھ پڑھ+
لکھ کر زندگی کی دوڑ میں شامل ہوگیا
وہ پراڈو اس کے پاس مزید پانچ سال رہی،تاہم اس نے ڈینٹ والا دروازہ مرمت نہیں کرایا
کبھی کوئی اس سے پوچھتا تو وہ بس یہی کہتا "زندگی کی دوڑ میں اتنا تیز نہیں چلنا چاہیے کہ کسی کو اینٹ مار کر گاڑی روکنی پڑے"
اوپر والا کبھی ہمارے کانوں میں سرگوشیاں+
وہ پراڈو اس کے پاس مزید پانچ سال رہی،تاہم اس نے ڈینٹ والا دروازہ مرمت نہیں کرایا
کبھی کوئی اس سے پوچھتا تو وہ بس یہی کہتا "زندگی کی دوڑ میں اتنا تیز نہیں چلنا چاہیے کہ کسی کو اینٹ مار کر گاڑی روکنی پڑے"
اوپر والا کبھی ہمارے کانوں میں سرگوشیاں+
کرتا ہے اور کبھی ہمارے دل سے باتیں کرتا ہے
جب ہم اس کی بات سننے سے انکار کردیتے ہیں تو وہ کبھی کبھار ہمارے طرف اینٹ بھی اچھال دیتا ہے
اور پھر وہ بات ہمیں سننا ہی پڑتی ہے
ہم جہاں ملازمت،بزنس،خاندان، بیوی بچوں کی خوشیوں کیلیے بھاگے جارہے ہیں
وہیں ہمارے آس پاس بہت سی گونگی چیخین+
جب ہم اس کی بات سننے سے انکار کردیتے ہیں تو وہ کبھی کبھار ہمارے طرف اینٹ بھی اچھال دیتا ہے
اور پھر وہ بات ہمیں سننا ہی پڑتی ہے
ہم جہاں ملازمت،بزنس،خاندان، بیوی بچوں کی خوشیوں کیلیے بھاگے جارہے ہیں
وہیں ہمارے آس پاس بہت سی گونگی چیخین+
اور سرگوشیاں بکھری پڑی ہیں
اچھا ہو کہ ہم اپنے ارد گرد کی سرگوشیاں سن لیں تاکہ ہم پر اینٹ اچھالنے کی نوبت نہ آئے
(واٹس ایپ)
کچھ تحریں خوبصورت اور دل پر اثر رکھنے والی ہوتی ہیں
میرا بہت دل تھا اس میں مذید کچھ اضافہ کرنے کا
لکھا بھی مگر ڈیلیٹ کر دیا
یہ تحریر اپنے اثر میں مکمل ہے
اچھا ہو کہ ہم اپنے ارد گرد کی سرگوشیاں سن لیں تاکہ ہم پر اینٹ اچھالنے کی نوبت نہ آئے
(واٹس ایپ)

میرا بہت دل تھا اس میں مذید کچھ اضافہ کرنے کا
لکھا بھی مگر ڈیلیٹ کر دیا
یہ تحریر اپنے اثر میں مکمل ہے
