( مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر )

تاریخ پیدائش : 4 نومبر 1618ءگجرات!
تاریخ وفات : 3 مارچ 1707ءاحمد نگر!

والد : شہنشاہ شہاب الدین خرم شاہجہان!
والدہ : ارجمند بانو (ممتاز محل)
شاہی خاندان : تیموری ، چنگیزی منگول)

مقبرہ : خلدآباد، اورنگ آباد،مہاراشٹر!

نمبر1
(دور حکومت)

31 جولائی 1658ء تا 3 مارچ 1707ء
تاجپوشی :15 جون 1659ء بمقام لال قلعہ!
پیشرو : والد خرم شاہجہان!
جانشین : بہادر شاہ اول!

(شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر 88 برس کی عمر میں بھی گھوڑے پر سوار ہوکر فوجوں کی صفوں کا جائزہ لیتے رہتے دورانِ جنگ وہ اکثر اوقات توپوں کیطرف آگے

نمبر2
تک بڑھ جاتے اس عمل سے فوجوں کےحوصلے مزید بلند رہتے.
اس عظیم الشان شہنشاہ نے نوے 90 سال کی عمر پائی ،دکن کےمقام احمد نگر میں تھے کہ شدید بخار ہوا اور 1707ء میں وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جاملےشہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے وصیت کی تھی کہ 4 روپے 2 آنے کی جو رقم میں نے ٹوپیاں سی کر

نمبر3
جمع کی ہے اس سے کھدر کا کفن خریدا جائے اور قرآن پاک لکھ کر جو 3 سو 5 روپے کمائے ہیں وہ خیرات میں دے دیے جائیں)

نمبر4
(محی‌الدین محمد اورنگزیب عالمگیر)

مغلیہ خاندان کا چھٹا شہنشاہ محی الدین اورنگزیب عالمگیر ان کے والد شہنشاہ شاہجہان نے انہیں عالمگیر کا خطاب عطا کیا،اورنگزیب 4. نومبر ،1618ء کو مالوہ کی سرحد پر پیدا ہوئے،ان کی والدہ کانام ارجمند بانو تھا جو ممتاز محل کے نام سے مشہور ہیں

نمبر5
اورنگ زیب کی عمر دو سال کی تھی کہ شاہجہان نے اپنے باپ جہانگیر کے خلاف بغاوت کردی اور بیوی بچوں کو لے کر چار سال تک بنگال اور تلنگانہ میں پھرتا رہا۔ آخر جہانگیر کے کہنے پر اپنے بیٹوں داراشکوہ اور اورنگ زیب عالمگیر کو دربار میں بھیج کر معافی مانگ لی،جہانگیر نےدونوں‌بچوں کو

نمبر6
ملکہ نورجہاں کی نگرانی میں بھیج دیا۔

اورنگزیب کو سید محمد، میر ہاشم اور ملا صالح جیسے علام کی شاگردی کا موقع ملا.مغل بادشاہوں میں اورنگزیب عالم گیر پہلے بادشاہ ہیں جنھوں نے قرآن شریف حفظ کیا اور فارسی مضمون نویسی میں نام پیدا کیا۔ اس کے علاوہ گھڑ سواری ، تیراندازی

نمبر7
اور فنون سپہ گری میں بھی کمال حاصل کیا۔ سترہ برس کی عمر میں 1636ء دکن کا صوبیدار مقرر ہوے۔ اس دوران میں اس نے کئی بغاوتوں کو فرو کیا۔ اور چند نئے علاقے فتح کیے۔ بلخ کے ازبکوں کی سرکوبی جس جوانمردی سے کی اس کی مثال تاریخ عالم میں مشکل سے ملے گی

نمبر8
شاہجہان کی بیماری کےدوران میں داراشکوہ نےتمام انتظام حکومت اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ داراشکوہ کی اس جلدبازی سےشاہجہان کی موت کی افواہیں پھیلنے لگیں اور ملک میں ابتری پھیل گئی.شاہ شجاع نے بنگال میں اپنی بادشاہت قائم کرلی اور آگرہ پر فوج کشی کے ارادے سے روانہ ہوا.بنارس کے قریب

نمبر9
دارا اور شجاع کی فوجوں میں‌جنگ ہوئی جس میں دارا کو فتح اور شجاع کو شکست ہوئی۔ اورنگزیب نےمراد سے مل کر داراشکوہ کے مقابلے کی ٹھانی.اجین کے قریب دنوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا.اورنگزیب عالمگیر کو فتح ہوئی۔ ساموگڑھ کے قریب پھر لڑائی ہوئی جس میں اورنگزیب کو دوبارہ کامیابی ہوئی

نمبر10
اورنگزیب ابوالمظفر محی الدین کے لقب سے تخت پر بیٹھا اس نے ہندوؤں اور مسلمانوں کی فضول رسمیں ختم کیں اور فحاشی کا انسداد کیا اور خوبصورت مقبروں کی تعمیر و آرائش ممنوع قرار دی. قوال،نجومی،شاعر موقوف کر دئیے گئے۔ شراب ، افیون اور بھنگ بند کردی. درشن جھروکا کی رسم ختم کی اور

نمبر11
بادشاہ کو سلام کرنے کا اسلامی طریقہ رائج کیا۔ سجدہ کرنا اور ہاتھ اٹھانا موقوف ہوا۔ سکوں پر کلمہ لکھنے کا دستور بھی ختم ہوا۔ کھانے کی جنسوں پر ہرقسم کے محصول ہٹا دیے۔ 1665ء میں آسام ، کوچ بہار اور چٹاگانگ فتح کیے اور پرتگیزی اور فرنگی بحری قزاقوں کا خاتمہ کیا. 1666ء میں

نمبر12
سرحد کےپشتوشاعرخوشحال خٹک کی شورش اورمتھرا،علیگڑھ کےنواحی جاٹوں کی غارت گری ختم کی.ست نامیوں کی بغاوت فرو کی.سکھوں کےدسویں اورآخری گروگوبندسنگھ نےانندپورکےآس پاس غارت گری شروع کی اورمغل فوج سےشکست کھاکرفیروزپور کےقریب غیر آباد مقام پرجا بیٹھے۔جہاں بعد میں مکتسیر آباد ہوا

نمبر13
اورنگزیب عالمگیر نے 1666ء میں راجا جے سنگھ اور دلیر خان کو شیوا جی کے خلاف بھیجا۔ انھوں نے بہت سے قلعے فتح کر لے۔ شیواجی اور اس کا بیٹا آگرے میں نظربند ہوئے۔ شیواجی فرار ہو کر پھر مہاراشٹر پہنچ گیا۔ اور دوبارہ قتل و غارت گری شروع کی۔ 1680ء میں شیواجی مرگیا تو اس کا بیٹا

نمبر14
سنبھا جی جانشین ہوا یہ بھی قتل و غارت گری میں مصروف ہوا۔ عالمگیر خود دکن پہنچا۔ سنبھا جی گرفتار ہو کر مارا گیا ۔ اس کا بیٹا ساہو دہلی میں نظربند ہوا۔ دکن کا مطالعہ کرکے عالمگیر اس نتیجے پرپہنچا کہ بیجاپور اور گولکنڈہ کی ریاستوں سے مرہٹوں کو مدد ملتی ہے اس نے 1686ء میں

نمبر15
بیجاپور اور 1687ء میں گولگنڈا کی ریاستیں ختم کر دیں۔ اس کے بعد مرہٹوں کے تعاقب میں‌ ہندوستان کے انتہائی جنوبی حصے بھی فتح کر لیے۔ مغلیہ سلطنت پورے ہندوستان میں پھیل گئی.

عالمگیر احمد نگر میں بیمار ہوا اور 3 مارچ 1707ء کو نوے برس کی عمر میں فوت ہوا۔ وصیت کے مطابق اسے

نمبر16
خلد آباد میں دفن کیا گیا۔ خلدآباد سے قریب ایک مقام ہے جس کا نام اورنگ آباد ہے، اورنگ آباد میں اورنگ زیب کی مختلف یادگاریں آج بھی محفوظ ہیں۔ بڑا متقی ، پرہیز گار ،مدبر اور اعلیٰ درجے کا منتظم تھا۔ خزانے سے ذاتی خرچ کے لیے ایک پائی بھی نہ لی۔ قرآن مجید لکھ کر ٹوپیاں سی کر

نمبر17
گزارا کرتا تھا۔ سلجھا ہوا ادیب تھا۔ اُس کے خطوط رقعات عالمگیر کے نام سے مرتب ہوئے۔ اس کے حکم پر نظام سلطنت چلانے کے لیے ایک مجموعہ فتاوی تصنیف کیا گیا جسے تاریخ میں (فتاویٰ عالمگیری) کہا جاتا ہے.فتاویٰ عالمگیری فقہ اسلامی میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔ بعض علما نے

نمبر18
شہنشاہ اورنگزیب کو اپنے دور کا مجدد بھی قرار دیا.پانچ بیٹے (بہادر شاہ،سلطان محمد اکبر،محمد اعظم شاہ، کام بخش،محمد سلطان)اور پانچ بیٹیاں ( زیب النساء،زینت النساء، مہرالنساء،بدرالنساء،زبدۃالنساء)چھوڑیں‌۔ مشہور شاعر زیب النساء مخفی ان کی دختر تھیں۔ بیٹا بہادر شاہ اول باپ کی

نمبر19
سلطنت کا وارث ہوا۔
شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر 88 برس کی عمر میں بھی گھوڑے پر سوار ہوکر فوجوں کی صفوں کا جائزہ لیتے رہتے دورانِ جنگ وہ اکثر اوقات توپوں کے کیطرف آگے تک بڑھ جاتے اس عمل سے فوجوں کےحوصلے مزید بلند رہتے.
اس عظیم الشان شہنشاہ نے نوے 89 سال کی عمر پائی،دکن کے

نمبر20
مقام احمد نگرمیں تھے کہ شدید بخار ہوا اور 1707ء میں اپنے خالقِ حقیقی سےجاملے.شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر نےوصیت کی تھی کہ 4 روپے 2 آنےکی جو رقم میں نےٹوپیاں سی کر جمع کی ہے اس سے کھدر کا کفن خریداجائے اور قرآن پاک لکھ کر جو 3 سو 5 روپے کمائے ہیں وہ خیرات میں دے دیےجائیں.

(مکمل شد)
You can follow @JavaidMongol.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled: