حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی

آل ثمود قوم عاد کے بعد آئی‘ یہ بھی انتہائی خوشحال اور مضبوط لوگ تھے‘ قد طویل اور جسم انتہائی مضبوط تھے‘ وہ بستر پر علالت کے عالم میں نہیں مرتے تھے‘ چلتے پھرتے کام کرتے ہوئے ٹانگیں سیدھی کرتے تھے‘‘ ہچکی لیتے تھے اور دنیا
سے رخصت ہو جاتے تھے‘ وہ بھی عاد کی طرح پہاڑ کاٹ کر عمارتیں بنانے کے ماہر تھے۔

اللہ نے انھیں بھیڑ بکریوں اور اونٹوں کے ریوڑوں سے نواز رکھا تھا‘ خوشحالی‘ پتھر کے تراشے ہوئے گھر اور جسمانی مضبوطی نے ان میں تکبر پیدا کر دیا‘ تکبر اور کفر
دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہوتے ہیں‘ متکبر لوگ بہت جلد کافر ہو جاتے ہیں‘ وہ بھی کافر‘ بت پرست اور مشرک ہو گئے‘ اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح ؑ کو مبعوث فرمایا‘ آپ نے قوم ثمود کو اللہ کا پیغام دیا‘ قوم نے آپ سے معجزہ طلب کیا۔

آپ نے قوم سے پوچھا ’’تمہیں کیا معجزہ چاہیے‘‘
قوم نے کہا تم اگر نبی ہو تو سامنے چٹان (پہاڑ) سے اونٹنی برآمد کردو‘ وہ اونٹنی بچہ دے اور ہم سب کے لیے دودھ‘ حضرت صالح ؑ نے دعا فرمائی‘ چٹان پھٹی اور ایک خوبصورت اونٹنی برآمد ہو گئی‘ اونٹنی چلتے ہوئے قوم ثمود کے پاس آئی‘ بچہ جنا اور اس کے تھن دودھ سے بھر گئے‘ قوم
ثمود لاجواب ہو گئی‘ اللہ تعالیٰ نے بعد ازاں اونٹنی کے لیے ایک چشمہ رواں کیا اور چرنے کے لیے نخلستان آباد کر دیا‘ اونٹنی اور اس کا بچہ سارا دن اس نخلستان میں چرتے رہتے تھے۔

ثمود کے سات قبیلے اونٹنی کا دودھ آپس میں تقسیم کر لیتے تھے‘ حضرت صالح ؑ نے
چشمے کا پانی بھی تقسیم کر دیا‘ پانی ایک دن اونٹنی پیتی تھی‘ لوگ اس دن اس کا دودھ دھوتے تھے‘ وہ لوگ اگلے دن اونٹنی کا دودھ نہیں نکالتے تھے اور چشمہ اس دن قبیلے کے جانوروں کے لیے وقف ہوتا تھا لیکن پھر نافرمانی کے کیڑے نے ان کے دماغ پر دستک دی اور ثمود کے دو نوجوانوں
قیدار اور مصدع نے اونٹنی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔

شراب پی اور اونٹنی پر حملہ کر دیا‘ قیدار نے تیر چلایا جب کہ مصدع نے تلوار سے اس کی ٹانگیں کاٹ دیں‘ اونٹنی کے بچے نے دیکھا تو اس نے چیخ ماری اور اسی چٹان کے اندر چلا گیا جس سے اونٹنی نے جنم لیا
تھا‘ اونٹنی کا قتل قوم ثمود کے خاتمے کا باعث بن گیا۔

اللہ تعالیٰ نے ان پر تین دن کا عذاب اتارا‘ پہلے دن ان کے چہرے سرخ ہوئے‘ دوسرے دن زرد ہو گئے اور تیسرے دن سیاہ ہو گئے‘ پھر شہر میں زلزلہ آیا‘ ایک چنگاڑ کی آواز آئی‘ پہاڑ قاشوں میں تقسیم ہوئے اور قوم
ثمود صفحہ ہستی سے مٹ گئی‘ مفسرین کے خیال کے مطابق چنگاڑ حضرت جبرائیل کی چیخ تھی‘ حضرت صالح ؑ اپنے 120 ساتھیوں کے ساتھ نقل مکانی کر گئے اور یوں آل ثمود بھی تاریخ کے اوراق میں جذب ہو گئی۔

حضرت صالح ؑ کی قوم کہاں آباد تھی‘ اس
کے بارے میں دو روایات ہیں‘ پہلی روایت کے مطابق آل ثمود سعودی عرب میں مدینہ منورہ سے چار سو کلومیٹر کے فاصلے پر آباد تھی‘ یہ تبوک کا علاقہ ہے‘ اردن کی سرحد پر واقع ہے اور یہ حضرت صالح ؑ کی نسبت سے مدائن صالح کہلاتا ہے‘یہ سرخ چٹانوں کا شہر ہے‘ پتھروں کے گھر‘
دروازے‘ کھڑکیاں اور قدیم ٹمپل آج تک موجود ہیں‘ چشمے اور نخلستان کے آثار بھی ہیں۔

حضرت صالحؑ قوم پر عذاب کے بعد حضرموت یا احقاف تشریف لے آئے تھے‘ یہ علاقہ اس وقت یمن اور آج عمان (صلالہ) کا حصہ ہے‘ حضرت صالحؑ نے یہیں انتقال
فرمایا‘ صلالہ سے دو سو کلومیٹر دور ناسک کے مقام پر ان کا مزار بھی موجود ہے‘ دوسری روایت کے مطاق آل ثمود نے قوم عاد کے علاقے پر قبضہ کیا‘ یہ صلالہ کے مضافات میں آباد ہوئے‘ اونٹنی اسی علاقے کی ایک چٹان سے نکلی ‘ یہیں قتل ہوئی‘ ثمود یہیں عذاب کا نشانہ بنے اور
حضرت صالحؑ عذاب کے بعد صلالہ سے دو سو کلومیٹر دور ناسک میں آباد ہوگئے اور ان کا یہیں انتقال ہوا۔ (جاوید چوہدری)

مختصر معلوماتی اسلامی اور تاریخی اردو تحریریں پڑھنے کیلئے
دوسرا اکاؤنٹ فالو کریں 👈🏻 @AliBhattiTP

ہمارا فیس بک گروپ جوائن کریں ⁦👇🏻👇🏻 https://bit.ly/2FNSbwa 
You can follow @Pyara_PAK.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled: