تھریڈ 🏌️‍♂️

“مریم نواز صاحبہ اتنے جارحانہ موڈ میں کیوں ہیں ؟؟”

سجنو اور مترو بات واقعی سچ ہے میرا کسی بھی سیاسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اکثر آپ دوست کہتے رہتے ہیں کہ تعلق نہیں ہے تو کسی کے حق میں یا خلاف کیوں لکھتا ہوں تو اس بات کا بہت دفعہ جواب دیا ہے۔

@MaryamNSharif
آج پھر بتا دیتا ہوں لکھنا لکھانا نہ میرا شوق ہے اور نہ مجھے پڑھنے پڑھانے کی کوئی عادت ہے میں جب آنلائن آتا ہوں ٹائم لائن دیکھتا ہوں تو جو خیال دماغ میں آتے ہیں وہ لکھ دیتا ہوں۔ جو سوال دماغ میں گھوم رہے ہوتے ہیں وہ پوچھ لیتا ہوں فوکس صرف ٹائم پاس کرنا ہوتا ہے۔
جونہی آفلائن جاتا ہوں ٹوئیٹر سے متعلق کوئی بات دماغ میں نہیں ہوتی کیونکہ جو یہاں شروع کرتا ہوں یہیں ختم کر کے جاتا ہوں۔ لہذا آپ دوستوں سے گُذارش ہے ایک بات سمجھ لیں نہ میری کسی سیاسی شخصیت سے دوستی ہے اور نہ ہی دشمنی ہے۔ جو اچھا لگتا ہے اس کی تعریف ضرور کرتا ہوں
اور جو نہیں سمجھ میں آتا وہ آپ کے سامنے ہی ہوتا ہے۔

جہاں تک یہ تھریڈ لکھنے کی بات ہے تو کافی عرصہ سے مریم نواز کو دیکھ رہا ہوں ٹوئیٹر سے پہلے بھی اور اب یہاں بھی دو سال ہونے کو آۓ ہیں۔
کافی اختلاف بھی رہے ان کی تحریروں سے اور باتوں سے جن کا کھل کے اظہار کیا جس کا رزلٹ یہ نکلا کے ان کے چاہنے والوں نے بہت دیر پہلے ان سے میوٹ کروا دیا ہوا ہے۔
خیر چھوڑیں اس ٹاپک پر کیا بات کرنی اصل بات کی طرف آتا ہوں مریم نواز صاحبہ کا موڈ اتنا جارحانہ کیوں ہے اس کے پیچھے کیا مُحرکات ہیں اور مریم نواز صاحبہ چاہتی کیا ہیں۔ کافئ دنوں سے ان کو دیکھ رہا ہوں کیونکہ ٹائم لائن بھری پڑی ہوتی ہے تو سب سامنے نظر آہی رہا ہوتا ہے۔
ابھی اچانک ایک آمد ہوئی اور وجہ مل گی ان کے جارحانہ موڈ کی وجوہات کیا ہیں چلیں ان پر تھوڑی روشنی ڈالتا ہوں شائد آپ بھی متفق ہو جائیں اور شائد نہ ہوں کیونکہ سوچ ہر کسی کی اپنی ہوتی ہے اور واقعات کو پرکھنے کا اپنا انداز ہوتا ہے۔
جہاں تک میری سوچ جاتی ہے یا ایسے کہہ لیں جو میرے دماغ میں کلک ہوئی بات وہ تھی میاں صاحب کی پہلی گورنمنٹ کا اُتارا جانا اُس وقت مُحترمہ کی عمر چھوٹی تھی اپنی نجی لائف میں مصروف تھیں لہذا ان باتوں کی طرف توجہ نہیں تھی۔ اسی دوران ان کی شائد شادی بھی ہوگی تھی
لہذا سیاست پاس سے بھی چھو کر نہیں گُذری تھی۔

جو واقعات میاں صاحب کے ساتھ ہو رہے تھے وہ شہباز شریف صاحب اور مرحومہ کلثوم نواز صاحبہ کے علم میں تھے اور مرحوم میاں شریف صاحب تمام واقعات کو بخوبی دیکھ بھئ رہے تھے اور انہیں سُلجھانے میں مصروف بھی تھے۔
وقت نے گُذر ہی جانا ہوتا ہے لہذا وقت گُذر گیا۔

دوسری بار جب میاں صاحب وزیر اعظم بنے اور پھر جب ان کو ایک بار پھر کرسی سے اُتار دیا گیا جو ہتک آمیز رویہ میاں صاحب کے ساتھ اپنایا گیا وہ مریم نواز کے دل پر لکھا گیا کیونکہ بیٹیاں باپ کے زیادہ نزدیک ہوتی ہیں۔
اس وقت مُحترمہ اپنے مکمل ہوش و حواس میں تھیں اور تمام سیاسی باتوں کو بخوبی سمجھتی تھیں۔
سونے پہ سہاگہ یہ ہوا جب مرحومہ کلثوم نواز صاحبہ میاں صاحب کے لیے میدان میں اُتریں تو مریم نواز صاحبہ ان کے شانہ بشانہ تھیں اور ریاست نے جو سلوک بیگم کلثوم نواز صاحبہ کے ساتھ روا رکھا یہ بھی مُحترمہ کو نظر آرہا تھا۔
بیٹی ماں کے ساتھ ہوتے سلوک کو اُس وقت صرف برداشت کر سکتی تھی کیونکہ کوئی ساتھ نہیں کھڑا تھا۔

ایک طرف باپ کی مُشکلات دوسری طرف ماں ہر ممکن دروازہ بجا رہی تھی جہاں سے ریلیف کی کوئی امید نظر آتی ہو مگر ہر دروازہ بند تھا اور اپنے بھی ساتھ چھوڑ کر سائیڈ پر ہوگے تھے
مگر مرحومہ نے اپنے مجازی خدا کے لیے ہر ناممکن کوشش کو ممکن بنایا اور اسی کوششوں کو دیکھتے ہوۓ اللّہ کو بھی ان پر رحم آگیا اور یہ جلاوطن ہوگے۔
یہاں مُحترمہ نے جو دس سال گُذارے وہ تھی ان کی سیاسی تربیت کیونکہ اب ان کو تمام صورتحال کو سمجھنے کا موقع ملا اور اُن تمام واقعات سے واقفیت ہوئی کے اقتدار کی غلام گردشوں میں ہوتا کیا ہے اور کیوں ہوتا ہے کیسے ہوتا ہے۔ یہی ان کی لائف کا ٹرننگ پوائنٹ تھا شائد میرے خیال میں۔
بہرحال ٹائم ایک بار پھر گُذر گیا۔

جلاوطنی ختم ہوئی یہ واپس آۓ تو بے نظیر کی شہادت کا واقعہ ہوگیا پپلز پارٹی اقتدار میں آئی میاں صاحب اپوزیشن میں کھڑے نظر آۓ یہاں ان کو حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کو کیسے کرتے ہیں وہ بھی سمجھ میں آنا شروع ہوگیا۔
میرے ذاتی خیال میں ان کو سیاست میں آنے کا موڈ نہیں تھا مگر قدرت کو شائد کچھ اور ہی منظور تھا۔

میاں صاحب 2013 میں تیسری بار وزیر اعظم بنتے ہیں تو مریم نواز باپ کے ساتھ اٹیچ ہو جاتی ہیں نیشنل ایونٹس ہوں یا انٹرنیشنل مریم نواز باپ کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں اور سیکھنے کا عمل جارئ ہے
یہیں سے سوشل میڈیا کا آغاز ہوتا ہے جو ان کے کنڑول میں تھا۔

ایک طرف خاں صاحب اور ایک طرف مریم نواز دونوں طرف سے گولہ باری جاری رہتی تھی دونوں ایک دوسرے کو خوب زچ کر رہے تھے۔ ادھر میاں صاحب اپنے کاموں میں مصروف تھے۔
یہاں پھر ٹرننگ پوائنٹ آگیا پانامہ ہنگامہ شروع ہو گیا اور اس میں کیا ہوا کیسے ہوا کیوں ہوا سب جانتے ہیں۔

میاں صاحب کو نااہل کر دیا گیا اور پھر ایک بار صدا بُلند ہوئی مجھے کیوں نکالا جس کی گونج شہر شہر نگر نگر قریہ قریہ پھیل گئی تھی اور اس سفر میں مریم نواز کے اپنے
والد کا بھرپور ساتھ نبھایا اسی دوران ان کی لائف کا پہلا امتحان شروع ہوا جس سیٹ سے میاں صاحب نااہل ہوۓ تھے وہاں بیگم کلثوم نواز کو کھڑا کیا گیا جس کی کمپئین مریم نواز نے تن تنہا چلائی کیونکہ باقی پارٹی پانامہ ہنگامہ میں مصروف تھئ۔
یہاں مریم نواز نے کُھل کر کھیلا اور اپنی صلاحیتوں کو منواتے ہوۓ جیت اپنی والدہ کی جھولی میں ڈال یہیں سے ان کی مخالفت کا آغاز شروع ہوگیا کیونکہ پارٹی کے اندر اور مقتدر حلقوں کو ان کی یہ جیت ہضم نہیں ہوئی جس کا رزلٹ آج تک دیکھ رہے ہیں۔
دوسری طرف میاں صاحب مجھے کیوں نکالا اور ووٹ کو عزت دو کے بیانیہ کے ساتھ مارکیٹ میں موجود تھے اور ان کا سامان خوب بک رہا تھا وہیں بیگم صاحبہ اپنی بیماری کے باعث لندن شفٹ ہو چکی تھیں یہاں سے ایک نئے دور کی شروعات ہوتی ہے۔
میرے ذاتی خیال میں اگر اللّہ پاک بیگم صاحبہ کو مزید مہلت دیتا اور وہ اسمبلی میں پہنچ جاتیں تو شائد حالات مختلف ہوتے مگر اللّہ کا اپنا ایک نظام ہے اور ہم اس کے تابع ہیں۔ یہیں سے ایک نئی تکون میاں صاحب کو گھیرے میں لے لیتی ہے اور مریم نواز کے لیے مُشکلات منہ کھولے کھڑی ہیں۔
یہاں سے آپ کو اندازہ ہونا شروع ہوگا کے اس جارحانہ موڈ کی وجوہات کیا ہیں نوٹ کرنا شروع کریں۔ تین دفعہ باپ کی تذلیل کی گئی ماں کی بیماری کا مذاق اُڑایا گیا دوران بیماری عدالتوں کے چکر لگواۓ گے۔ کبھی لندن کبھی لاہور کبھی اسلام آباد اپنی گورنمنٹ کے ہوتے ہوۓ بھی ہاتھ باندھ دئیے گے۔
یہیں ایک سنسنی خیز موڑ کے ملک کی سیاست کا رُخ ہی بدل دیا ادھر میاں صاحب کو سزا ہوتی ہے تو بجاۓ اس کے میاں صاحب خود گرفتاری دینے آجائیں بیٹی پہلے قدم اگے بڑھا چکی تھی کیونکہ اب آر یا پار اس کے دماغ میں گھوم رہا تھا۔
ہونے کو کیا نہیں ہو سکتا تھا میاں صاحب سیاسی پناہ لیتے اور سکون کرتے ہم ویسے ہی تماش بین لوگ ہیں چار دن تماشہ لگاتے اور کسی اور کئ مدح سرائی میں مصروف ہو جاتے اصل میں ہم لوگ سچ بولتے ضرور ہیں مگر سُن نہیں سکتے کیونکہ سچ جہاں کڑوا ہوتا ہے وہیں گلے میں اٹک ہی جاتا ہے۔
بہرحال قصہ مُختصر میاں صاحب اڈیالہ پہنچ گے بیٹی سمیت یہاں دوہری اذیت تھی پارٹی کھل کے سامنے نہیں آئی اور ایک طرف بیٹی جسے کبھی گرم ہوا نے بھی نہیں چھوا تھا وہ جیل میں تھی اُدھر شریک حیات
اپنی زندگی کی سانسیں پوری کر رہی تھئ خود اپنی بیماری الگ بہرحال جو اللّہ کو منظور ہوتا ہے وہی ہوتا ہے۔

اکثر لکھتا ہوں لیڈر لیڈر ہوتا ہے ایک مظبوط اعصاب کا مالک جس کی فیملی قوم ہوتی ہے لہذا ہر بات قوم سے شروع ہو کر قوم پر ختم ہوتی ہے
مگر بد قسمتی سے نہ ہم قوم ہیں نہ ہی ہمارے پاس لیڈر بس ہم سب شخصیت پرستی کے قائل ہیں۔ آپ مانیں چاہے نہ مانیں۔
لیڈر اپنے ہزار دکھ پی جاتا ہے مگر اُف تک نہیں کرتا یہاں تھوڑا اُلٹا حساب ہے لیڈر عوام کے دکھڑے کم اپنے زیادہ رونے سامنے آتا ہے اور اسی کو کیش کروانے کے چکروں میں رہتا ہے بہرحال بات دوسری سائیڈ پر نکل گئی۔
جو بھی حالات و واقعات چل رہے تھے اور جو کچھ بھی ماضی میں دیکھا اور اس کے نتیجے میں گھر بار پر کیا بیتی ان تمام باتوں نے مریم نواز کو ضدی بنا دیا تھا کے آخر کیوں اور یہ کب تک چلے گا۔ سیاست میں تو اینٹری ہو چکی تھی اور جان سے عزیز ماں کی جدائی بھی سہہ لی
باپ کی جیل دوسری دفعہ دیکھی اور جو پارٹی کے حالات و واقعات بن گے تھے وہ بھی کوئی حوصلہ افزاء نتائج دیتے نظر نہیں آرہے تھے۔

مریم نواز نے ایک دور وہ دیکھا تھا جب ماں گھر داری چھوڑ کے اپنے شوہر کے لیے گھر سے باہر نکل آئیں تھیں وہیں ان کے ساتھ ہوۓ سلوک کو دیکھا پھر باپ کے ساتھ ہوۓ
تین دفعہ کے سلوک کو دیکھا پھر ماں کی بیماری میں باپ کو قانون کے سامنے سر جھکاتے دیکھا اور پھر خود جیل کی میلی دیواروں پر ایک روشن صبح کی امید دیکھی تو حوصلہ پہاڑ جتنا بُلند ہوگیا۔

جیسے پنجابی کا ایک مشہور محاورہ ہے ؀

“نسدیاں نوں وان اکو جئے”
لہذا دوڑ شروع ہوگی تھی میاں صاحب کو توڑنے اور بیٹی کو جھکانے میں مگر میاں صاحب اپنی عادت اور فطرت کے مطابق ڈٹ گے اور بیٹی اپنے ساتھ کئے گے سلوک اور فیملی کے ساتھ کی گئی ہتک دل پر لے گئے یہیں سے ڈرامائی صورتحال سامنے آئی۔
میاں صاحب کوٹ لکھپت سے ہوتے ہوۓ آج کل لندن میں زیر علاج ہیں اور مریم نواز طویل خاموشی کے بعد اپنے طوفانی بیانات کے ساتھ میدان میں موجود ہیں یہی ایک ٹرننگ پوائنٹ ہے جو جتنا برداشت کر گیا جیت اُس کا مقدر ہوگی۔
مریم نواز کے لہجے کی تلخی جہاں اپنے اور فیملی کے ساتھ کئیے گے ناروا سلوک کی وجہ ہے وہیں ووٹ کو عزت دو اور وزیر اعظم نواز شریف جیسے نعرے اس کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں۔ ان تلخیوں میں زہر نہیں ہے اپنا حق حاصل کرنے کی شدت ہے۔
جارحانہ موڈ اگر اپنے لیے ہے وہیں عوام کو بھی تمام حقائق سے آگاہ کرنے کے لیے ہے کے عوام کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے۔ میرا تو یہی خیال ہے اس جارحانہ موڈ میں جو سر کشی ہے وہ یا تو اپنی جیت حاصل کر لے گی
یا اقتدار کی غلام گردشوں میں اس آواز کو خاموش کروانے کے لیے کوشش شروع کر دی جاۓ گی
واللّہ عالم
پاکستان کی سیاست میں جس نے سرنگوں کیا اس نے عزت کمائی ہو یہ ممکن نہیں مگر اقتدار کو ضرور انجواۓ کیا مگر ن لیگ کی بدقسمتی ہے اقتدار جب بھی ملا غیروں کی سازش کے ساتھ ساتھ اپنوں کی بے رُخی بھی سہی بہرحال وقت تو گُذر ہی جاتا ہے۔
فاطمہ جناح سے لے کر بینظیر بھٹو اور مریم نواز پاکستان کی سیاست خواتین لیڈر برداشت نہیں کرتی مگر اب دور اور ہے اب مرضی کی گفتگو نہیں چلتی اور نہ ہے فیصلے سوشل میڈیا کا دور ہے ہر انسان کو ہر خبر ہر زاویے سے پہنچ رہی ہوتی ہے لہذا جعلی خبروں اور تبصروں کا زمانہ گیا۔
اور اسی جدید زمانے کی آواز کے مریم نواز اور اس آواز کی گونج سے بڑے بڑوں کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں اور وہ تمام اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں جن سے اس آواز کو قید کیا جاسکے مگر قدرت کو شائد کچھ اور ہی منظور ہے۔
مریم نواز کا جارحانہ انداز اگر اپنی جیت کو حاصل کر گیا تو امید ہے سویلین سُپرمیسی کا چاند افق پر طلوع ہو جاۓ اور پاکستان کی ایک نئی شکل دنیا کے سامنے آۓ اور اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر لے۔
ابھی دو دن پہلے جو میاں صاحب کی تقریر اور کل مریم نواز کا دوران پیشی جو انداز دیکھا گیا اس سے لگ رہا ہے حالات بہت تیزی سے تبدیل ہوں گے اور کس کے حق میں ہوں یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ مگر امید یہی کی جا رہی ہے اس دفعہ فتح میاں صاحب کی ہوگی
کیونکہ بیٹی نے باپ کے بیانیہ کا وزن اُٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہوئی۔

امید کرتے ہیں اسی جارحانہ انداز کے ساتھ مریم نواز میدان میں موجود رہیں اور مستقبل میں تمام سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مل کر ایک نئے سویلین پاکستان کی بنیاد رکھیں جہاں سوئیلین سُپر میسی کا بول بالا ہو۔
عوام اپنے آئنی حقوق کے ساتھ زندہ رہیں اور ان کو تمام بنیادی سُہولتوں کے ساتھ بطور پاکستانی شہری فخر ہو خود پر۔

دعا ہے مریم نواز اپنے جارحانہ موڈ کے ساتھ عوام کی خواہشات کو بھی مد نظر رکھتے ہوۓ اُن تمام حفاظتی اقدامات پر عمل کریں جو ان کی زندگی کی ضمانت ہوں۔
باقی جہاں تک میری سوچ ہے مجھے جارحانہ لیڈر ہی پسند ہیں اگر وہ عوامی ہوں۔ عوام کئ خواہشات کو مقدم رکھتے ہوں عوام میں موجود ہوں عوام کے لیے ہوں۔
اس تھریڈ میں لکھی گئی ہر بات میرا مشاہدہ ہے لہذا اسی تناظر میں پڑھیں متفق ہونا یا نہ ہونا ضروری نہیں ہے۔ کیونکہ سوچ کی بہت ساری سمتیں ہوتی ہیں۔ آپ جو سوچ کر لکھتے ہیں وہ کوئی اور نہیں سوچ سکتا لہذا امید کرتا ہوں آپ اپنی مثبت راۓ ضرور دیں گے۔
مُحترمہ مریم نواز صاحبہ سے گُذارش ہے اپنا خیال رکھیں اور اپنے جارحانہ مزاج کو مثبت استعمال کرتے ہوۓ اپنے لیے بھی انصاف حاصل کریں اپنی فیملی کے لیے بھی اور عوام کے لیے بھی تاکہ کل آپ جب اس ملک
کی وزیر اعظم بنیں آپ تلخیوں کو سامنے نہ رکھیں بلکہ اپنے جارحانہ مزاج کے ساتھ ملک کو درست سمت میں ڈال دیں۔

اللّہ پاک آپ کا حامئ و ناصر ہو اور آپ کی نیت کا پھل ضرور آپ کی جھولی میں ڈالے۔ تکلیفیں انسان کو مظبوط کرنے کے لئے ہی آتی ہیں لہذا آپ کافی بہادر بن چکی ہیں
بس اب آخری معرکہ ہے اس میں کامیاب ہونے کے لیے آپ کو اب دماغ کو تھوڑا ٹھنڈا رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ جارحانہ مزاج کے ساتھ دماغ بہتر پلاننگ کرے اور آپ میدان عمل میں سُرخرو ہوں۔

جزاک اللّہ خیراً

کنگ میکر
You can follow @restiswell.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled: