موٹروے واقعے کی حقیقت!!

معروف مفکر نوم چومسکی اور ایڈورڈ ہرمن نے 1988 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب The Political Economy of Mass Media میں خبر کو عوام تک پہنچانے کے اس سلسلے کو ایک پراپیگنڈا ماڈل قرار دیتے ہوئے ایسے پانچ فلٹرز کی نشاندہی کی جن سے گزار کر خبر کو عوام تک پہنچایا++
جاتا ہے۔ انہی فلٹرز کے ذریعے یہ طے کیا جاتا کہ کس خبر کو کس انداز سے لوگوں تک پہنچانا ہے یا اس میں مطلوبہ ردوبدل کرنا ہے یا سرے ہی سے دبا دینا ہے!!
دور جدید میں عوام کے ذہنوں کو الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے، آپ کو یاد ہوگا کچھ دن پہلے بلی کے بچے کا واقعہ++
منظر عام پر آیا اور اس پہ کافی طوفان بدتمیزی مچایا گیا، بعد میں ایف آئی اے کی تحقیق سے وہ واقعہ جھوٹ ثابت ہوا ، پوسٹ کرنے والی نے پوسٹ ڈیلیٹ کر کے معافی مانگ لی اور معاملہ ختم!
لیکن یہ معاملہ ختم نہیں ہوا بلکہ اس نے ذہنوں میں غلاظت کے بیج کی آبیاری کی۔۔۔۔ ایک غیر فطری عمل ڈسکس++
کرنا normalised کردیا اور ہمیں اخلاقی اقدار سے کئی قدم پیچھے دھکیل دیا۔۔۔
اسی طرح دو دن قبل موٹر وے پہ پیش آنے والے واقعے نے پوری قوم کو کرب و ہیجان میں مبتلاء کر رکھا ہے۔۔۔
ایک عورت کا اسکے بچوں کے سامنے ریپ ہوجانا ایک ایسا دلدوز واقعہ تھا کہ جس نے پورے ملک کو ہلا کے رکھ دیا++
اور ہر طرف سے ایک ہی آواز اٹھنے لگی کہ "مجرم کو سرعام پھانسی دو" لیکن میڈیا نے اس کو سی سی پی او کی طرف موڑ دیا اور پورا زور لگایا جارہا ہے کہ کسی طرح عمر شیخ کو عہدے سے برطرف کردیا جائے، اسکے خلاف آئی بی کی سراسر بددیانتی پر مبنی رپورٹ بھی منظر عام پر آگئی اور اسکے بیان کو++
توڑمروڑ کے اسکو عورتوں کے خلاف بنایا گیا۔۔۔ کونسی عورت رات ساڑھے بارہ بجے ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کے لیئے پیٹرول چیک کیئے بنا نکلے گی؟ اور گاڑی جب پیٹرول کم ہونے کا انڈیکیٹر دے تو آپ ٹول پلازہ پہ رک کے مدد طلب کریں گے یا پیٹرول ختم ہونے کا انتظار کریں گے؟ آپکی گاڑی لاہور کی++
حدود میں خراب ہوگی تو آپ لاہور سے رشتہ دار بلائیں گے یا گجرانوالہ سے؟ اور بلایا بھی کس کو؟ کوئی شوہر باپ بھائی کزن چاچا ماما تایا پھپھا نہیں بلکہ "دوست" کو۔۔۔ اور وہ دوست یعنی سردار شہزاد بعد میں پہچاننے سے ہی انکاری ہوگیا
پھر خبر آئی کہ محترمہ نے کال جنید نامی شخص کو کی تھی++
جو شہزاد کا دوست تھا اور دونوں نے ایف آئی آر میں غلط ایڈریس لکھوائے، فون آف کردیئے۔۔۔کہانی میں بے شمار جھول ہیں۔۔۔۔ ایف آئی آر کے مطابق شہزاد جب پہنچا تو ثنا درختوں والی سائیڈ سے آرہی تھی جبکہ ڈولفن پولیس اہلکار کا بیان ہے کہ اس نے ثنا کو بچوں کے ساتھ درختوں کے جھنڈ میں لیٹا++
پایا۔۔۔ ثنا نے پہلی کال کا وقت تین بجے لکھوایا جبکہ سوا دو بجے عینی شاہد نے ایک آدمی کو اسے گھسیٹتے ہوئے دیکھا جس کے پاس ڈنڈا پکڑا تھا اور عینی شاہد وہاں سے اڑنچھو ہوگیا اگلے دن تھانے پیش ہوکر بتاتا ہے کہ صبح خبروں سے اسے واقعے کا پتہ چلا جبکہ یہ خبر اسوقت تک میڈیا پر آئی ہی++
نہیں تھی۔۔۔ ثنا کے بیان کے مطابق اسے گن پوائنٹ پہ لے جایا گیا، جب گن تھی تو گاڑی کا شیشہ ڈنڈے سے توڑنے کی کیا ضرورت تھی؟ ڈاکو سب لے گئے موبائل چھوڑ گئے۔۔۔ قبروں میں اتر کر رپورٹنگ کرنے والا میڈیا، مختاراں مائی کو انٹرنیشل لیول پہ لے جانے والا میڈیا، مرنے والوں کے لواحقین کے منہ++
میں مائک گھسا کے چسکے لینے والا میڈیا فرانسیسی شہری ثناء کے "پردے" کا اتنا خیال رکھ رہا ہے کہ اسکا نام تک نہیں لے رہا اسے دکھانا تو دور۔۔۔۔
کیا آپ نے ایک پل کے لیئے سوچا کہ بجائے ریپ کے مجرموں کو سزا دلوانے کی قانون سازی کا مطالبہ کرنے کے، سی سی پی او کو ہی کیوں رگڑا لگایا++
جارہا یے؟؟
شاید یہ سوال بہت ذہنوں میں اٹھا ہو!! لیکن عمومی طور پر مائنڈ پروگرامنگ ایسی کردی گئی ہے کہ آپ وہی دیکھتے ہیں جو دکھایا جاتا ہے وہی سوچتے ہیں جیسا اگلے چاہتے ہیں۔۔
دراصل کہانی شروع ہوئی تب جب سی سی پی او نے لینڈ مافیا کے خلاف آپریشن شروع کیا٬ مریم نواز کے کزن++
بلال یاسین جو سابقہ صوبائی وزیر ہیں اور افضل کھوکھر کی غیر قانونی اراضی کے خلاف ایکشن لیا، نواز شریف کے کزن سہیل ضیا بٹ اور اس کے ایم این اے بیٹے کے خلاف ایف آئی آر درج کی، سی سی پی او کو روکنے کے لیئے کیپٹن صفدر میدان میں آیا لیکن عمر شیخ نے پریشر لینے سے انکار کردیا اور++
دونوں کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا جس پہ کیپٹن صفدر نے اسکو دھمکایا اور اسکے بعد یہ سارا ڈرامہ اسٹیج کیا گیا، یاد رہے ن لیگ سی سی پی او کی تعیناتی کے خلاف عدالت میں کیس بھی کرچکی ہے اور پھر پریشر بنانے کے لیئے یہ پلان بنایا گیا، مدعی سردار شہزاد ن لیگ کا ورکر یے اور ثنا کے++
ساتھ اسکے تعلق کی وضاحت کہیں نہیں کی گئی، البتہ جنید کو ثناء کا بوائے فرینڈ بتایا جارہا ہے۔۔۔
جاتی امرا کے کسی ڈرائنگ روم میں ویڈیو لنک کے ذریعے بنایا گیا سارا پلان بے نقاب ہوچکا ہے لیکن چونکہ انعام غنی صاحب بھی "عقیدت مندوں" میں شامل ہیں اور معاملہ پولیس کی "عزت" کا بھی ہے++
اس لیئے فسانے کو خوبصورت موڑ دینے کی کوششیں ہورہی ہیں اور حقیقت کا رنگ بھرنے کے چکر میں چول پہ چول ماری جارہے۔۔۔
جس کا ڈی این اے میچ "کروایا" اسے بھگا دیا، جس کو چھاپے مار کے پکڑنا تھا وہ خود پیش ہوگیا
سی سی پی او کا اسوقت وہی حال ہے جو عمران خان کا وزیراعظم بننے کے بعد++
ہوا کہ اسطرح گھیر لیا غموں نے جیسے۔۔۔میں جزیرہ ہوں میرے چاروں طرف پانی ہے!!
لیکن ایک بات تو طے ہے، اگر عمر شیخ یہ خود پہ مسلط کی گئی جنگ سروائیو کرگئے تو پنجاب پولیس کا مستقبل بدل جائے گا!!
You can follow @SyedaSays__.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled: