6 مارچ، چاروں طرف پہاڑوں پر برفباری اور ایبٹ آباد وادی میں سات دنوں کی مسلسل بارش، پی ایم اے کاکول کے عقب میں ہماری وہ آخری ملاقات، شال میں لپٹی ٹھٹھرتی ہوئی ٬تُم، اور سردی سے بےنیاز ٹریک سوٹ میں تمہیں دیکھتا ہوا ٬میں، تمہارے کپکپاتے ہوئے ہونٹوں سے نکلنے والا وہ آخری جملہ💔
میں اُس سے محبت کے اظہار میں بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں، کچھ ایسا جو اسے لگے کہ یہ اندازِ اظہار اس دنیا کا نہیں، جن الفاظ کی اُس ترتیب کو کسی شاعر نے کہا ہو، جو الفاظ میرے دل پر بس اس کیلئے اُترے ہوں،

مگر کہہ نہیں پاتا، وہ میرے ان الفاظ کو میرے رقیب پر لاگو کرکے میری توہین کرتی ہے
دکھ یہ ہے میرے یوسف و یعقوب کے خالق

وہ لوگ بھی بچھڑے جو بچھڑنے کے نہیں تھے
ہمارے ساتھ چلنے کی اذیت کون کاٹے گا؟
سفرِ زیست میں تیرے ساتھ کی خاطر،
میں نے وہ منزلیں بھی چھوڑیں، جو میرا مقدر تھیں۔
کون بچھڑ کر پھر لَوٹے گا؟
کیوں آوارہ پھرتے ہو؟
راتوں کو اِک چاند مجھے سمجھائے بھی،
گھبرائے بھی۔
خواب کی مسافت سے
وصل کی تمازت سے
روز و شب کی ریاضت سے
کیا ملا محبت سے
اک ہجر کا صحرا
ایک شام یادوں کی
اک تھکا ہوا آنسو
تمہارا جانا بہاروں کا اولین دُکھ تھا،
تمہارا آنا اُداسی کا آخری حل ہے۔
ابھی گزشتہ،
تمام زخموں کے سبز ہونے کا ڈر بہت ہے،
میں ان کی زد سے نکل گیا تو،
تمہارے کاندھے سے آ لگوں گا،
میں ضائع ہونے سے بچ گیا تو تمھیں ملوں گا۔
بعد تیرے جانِ جاں، دل میں رہا عجب سماں۔
تیری صورت سے نہیں ملتی کسی کی صورت،
ہم جہاں میں تیری تصویر لیے پھرتے رہے۔
وہ تمہیں پائل پہنانے کیلئے اپنے گھٹنوں پر نہیں بیٹھے گا۔
وہ تمہاری کلائی پکڑ کر کنگن کی کھنکھناہٹ نہیں سُنے گا۔
وقت کی ریت پہ، کُچھ میرے نام سا،
لکھ کے چھوڑ گیا، تُو کہاں؟
تمہاری یاد میں بیٹھے،
کبھی ہم کُڑھتے رہتے ہیں،
کبھی ہم جلتے رہتے ہیں،
اُداسی حد سے بڑھ جائے تو تنہا چلتے رہتے ہیں۔
جنکو ہم ہنسنا سکھاتے ہیں، وہ جاتے وقت ہماری ہنسی ساتھ لے جاتے ہیں۔
یہ جان کر بھی کہ اُس سے نبھایا نہ جائے گا، میں نے اُس سے محبت کا تعلق قائم کیا، یہ لال آنکھیں، سیاہ حلقے، بکھرے بال اور ویران خد و خال میں نے خود خریدے ہیں وگرنہ کسی کی کیا مجال تھی کہ یہ سوغاتیں مجھے تحفے میں دے جاتا۔
یہ تجربات کتابوں میں تھوڑی لکھے تھے،
بہت سے سال لگے، سال بھی جوانی کے۔
کشمیر کی وادی کے وہ پُر کیف نظارے،
لمحات محبت کے جہاں ہم نے گُزارے،
انگڑائیاں لے کر میری بانہوں کے سہارے،
گُلنار نظر آتی تھی وہ شرم کے مارے،
یک طرفہ نہ تھے حُسن و محبت کے اشارے،
اُس نے بھی کئی بار میرے بال سنوارے،
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں،

تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل۔
کیا تیرے ہاتھ بھی چاہت میں یہی کچھ آیا؟
پھول سوکھے ہوئے، تحریر پٌرانی کوئی.
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں۔
کیسے سمجھاؤں کہ کچھ دُکھ سمندر ہیں میرے۔
You can follow @SherrySherlockH.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled: