دستور پاکستان تھریڈ

پہلا دستور پاکستان:
تاریخ بڑی ظالم شے ہے یہ آج نہیں تو کل سوال ضرور اُٹھاتی ہے۔
مارچ 1940 میں مسلم لیگ نے لاہور میں قرارداد پاکستان منظور کی اور یہ فیصلہ ہوا کہ مسلمانان ہند کے لئے ایک علحیدہ وطن کا قیام ناگزیر ہے اور اس کے لیے کوششیں شروع ہوگئیں۔
مطالعہ پاکستان میں ہم پڑھتے ہیں کہ انگریزوں اور کانگریس کی ریشہ دوانیوں کے باوجود صرف سات سالوں میں مسلم لیگ نے قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں مسلمانوں کے لیے ایک جدا ملک حاصل کرلیا۔
لیکن سات سالوں میں پاکستان بنانے والی مسلم لیگ اور اس کی ولولہ انگیز قیادت پاکستان بننے کے
نو سال بعد تک بھی آئین نہ بنا سکی۔
اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مسلم لیگ کی قیادت سمیت سب کا واحد مقصد صرف تقیسم ہند کے ذریعے علحیدہ ملک کا قیام تھا ۔ اس ملک کے قیام کا مقصد کیا ہے اور آگے یہ کیسے چلے گا اس کا واضح نقشہ کسی کے پاس نہیں تھا۔
1935 کے ایکٹ کے تحت نظام پارلیمانی
جمہوری تھا، لیکن چونکہ خود قائد اعظم گورنر جنرل تھے لہٰذا وزیر اعظم لیاقت علی خان کے مقابلہ میں انہیں وسیع اختیارات حاصل تھے اور پھر انہیں دستور ساز اسمبلی کے صدر کی حیثیت سے بھی بے حد اہم مرتبہ حاصل تھا۔ یہی وجہ تھی کہ قائد کی وفات کے بعد گورنر جنرل کے عہدے نے بار بار دستور ساز
اسمبلی کا گلہ گھونٹا۔
قیام پاکستان کے دو سال بعد 1950 میں آئین ساز کمیٹی نے پہلا خاکہ پیش کیا ، اس میں برابری کی بنیاد پر دو ایوانوں کی تجویز پیش کردی گئی تھی،
مشرقی پاکستان کی قیادت نے اسے یکسر مسترد کردیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے دو خود مختار یونٹوں پر
مشتمل ری پبلیکن طرز کی حکومت قائم کی جائے ،آبادی کی بنیاد پر تشکیل پانے والی مرکزی پارلیمنٹ کو صرف خارجہ امور کرنسی اور دفاع کے اختیارات حاصل ہوں،
1952 میں آئینی کمیٹی نے تجاویز کی دوسری رپورٹ پیش کی۔ اس میں برابری کی بنیاد پر پارلیمنٹ کے دو ایوان تجویز کیے گئے تھے،
ایک ایوان
بالا جس کے120 اراکین ہوں۔
60 مشرقی پاکستان اور 60 مغربی پاکستان کے تمام صوبوں پر مشتمل ہوں دوسری ایوان زیریں جس کے 400 ارکان جو براہِ راست منتخب ہوں ، جس میں 200 اراکین مشرقی پاکستان اور 200 اراکینِ مغربی پاکستان کے تمام یونٹس سے منتخب ہوں۔
مشرقی پاکستان والوں نے اس کی مخالفت
کی کہ آبادی میں دو فیصد زیادہ ہونے کے باوجود انہیں مغربی پاکستان کے برابر نمائندگی دی گئی تھی۔
یہاں پنجاب نے اس رپورٹ کی شدید مخالفت کی۔
پنجاب نے اس رپورٹ کو اس بنیاد پر مسترد کر دیا کہ ملک کے ایک صوبے کو دوسرے آٹھ یونٹوں کے برابر نمائندگی دی جارہی ہے اور یوں مشرقی پاکستان پورے
ملک پر حاوی ہو جائے گا،
ملک فیروز خان نون کی قیادت میں پنجاب کے مسلم لیگی اراکین نے 5 اکتوبر 1954 کو دستور ساز اسمبلی میں تین نکاتی آئینی مطالبہ پیش کیا ،
جس کے تحت مرکز کا اختیار صرف چار امور، دفاع، امور خارجہ ، کرنسی اور بین الصوبائی مواصلات تک محدود تھا
(اندازہ لگائیں آج محب وطنوں کو اس اٹھارہویں ترمیم پر اعتراض ہے جس میں صرف تعلیم اور صحت کو وفاق سے لیکر صوبوں کے حوالے کردیا گیا ہے) ۔
پنجاب کے ان اراکین نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ آئندہ پانچ برس تک آئین میں کوئی ترمیم اس وقت تک نہیں ہو جب تک یہ تمام صوبائی اسمبلیوں میں تیس فی صد
ووٹ سے منظور نہ ہو۔
پنجاب گروپ نے یہ الٹی میٹم دیا کہ اگر ان کے یہ مطالبات ستائیس اکتوبر تک تسلیم نہ کیے گئے تو وہ سب دستور ساز اسمبلی کی رکنیت سے مستعفیٰ ہو جائیں گے۔
انیس دن بعد 24 اکتوبر 1954 کو گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی توڑ کر ملک کو مزید بحران کی جانب دھکیل
دیا۔
جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ گورنر جنرل کے اس اقدام کو مولوی تمیز الدین نے سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کیا۔
سندھ ہائیکورٹ نے گورنر جنرل کے اقدام کو غیر آئینی قرار دے کر دستور ساز اسمبلی کے بحالی کا فیصلہ جاری کردیا لیکن سپریم کورٹ نے گورنر جنرل کے حکم کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز
قرار دے کر ملک میں آئین شکنی کی نئی روایت قائم کردی۔
اس دن سے لیکر آج تک آپ سندھ ہائیکورٹ ، لاہور ہائیکورٹ، پشاور ہائیکورٹ ، بلوچستان ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کا ایک جائزہ لیں تو حقیقت کا ادراک ہو جائے گا۔سپریم کورٹ کے حکم پر نئے دستور ساز اسمبلی منتخب کردی گئی۔ لیکن
خواجہ ناظم الدین، سردار عبدالرب نشتر، اور مولانا اکرم خان جیسے سینئر مسلم لیگی قیادت کو اس نئی دستور ساز اسمبلی سے دور رکھا گیا کہ ملک اس وقت مکمل طور پر غیر جمہوری اور غیر سیاسی قوتوں کے شکنجے میں تھا۔
نئے گورنر جنرل جنرل اسکندر مرزا اور نئے وزیر اعظم چوہدری محمد علی جیسے
بیوروکریٹس کی قیادت میں نئے آئین کی تیاری کا عمل شروع ہوا جس کے لیے مغربی پاکستان کی اکثریتی جماعت مسلم لیگ اور مشرقی پاکستان کے جگتو فرنٹ کے درمیان زبردست سودے بازی ہوئی،
8 جنوری 1956 کو آئین کا پہلا مسودہ شائع ہوا،
29 فروری 1956 کو دستور ساز اسمبلی نے ملک کا پہلا آئین منظور
کر لیا، 2مارچ گورنر جنرل نے اس کی منظوری دی،
نئے آئین میں گورنر جنرل کا عہدہ ختم کرکے صدر مملکت کا نیا عہدہ متعارف کروایا گیا جس کے پاس وسیع اختیارات تھے۔
چند روز بعد دستور ساز اسمبلی نے گورنر جنرل اسکندر مرزا کو نئے آئین کے تحت ملک کا پہلا صدر منتخب کیا اور بڑے دھوم دھڑکے کے
ساتھ 23 مارچ 1956 کو نیا آئین نافذ ہوا،
اسی دن صدر مملکت نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا، اور یوں پاکستان پہلی بار آئینی طور پر خود مختار ریاست بن گیا۔یوم جمہوریہ یا یوم قرارداد پاکستان :
آئین کے نفاذ کی مناسبت سے 23 مارچ کے دن کو یوم جمہوریہ کے طور پر منانے کا فیصلہ ہؤا۔
اگلے سال دو
سال تک 1957 اور 1958 کو 23 مارچ کو یوم جمہوریہ کے طور پر منایا گیا۔افسوس کہ نو سال بعد بننے والا ملک کا یہ پہلا آئین صرف اکتیس مہینے ہی چل سکا
1958 میں اسکندر مرزا نے مارشل لگاکر اپنے بنائے ہوئے آئین کو معطل کردیا،اب جب 1959 کی 23 مارچ قریب آئی تو پریشانی ہوئی کہ اب تو
پاکستان جمہوری ملک نہیں تو "یوم جمہوریہ" کیسے منایا جائے.اور جس آئیں کے نفاذ کے دن کے لئے مناتے ہیں وہ آئیں ہی معطل ہو گیا لیکن بیوروکریٹ ہر مسئلے کا حل جانتے ہیں فیصلہ کیا اس دن کو "یوم قرارداد پاکستان" کے طور منایا جائے، تب سے ایسا ہی چل رہا ہے اب اس کو "یوم پاکستان" کہتے ہیں۔
ہم وہ بدقسمت قوم ہیں جو یوم جمہوریہ کے دن بھی توپوں اور ٹینکوں کو سلامی پیش کرتے ہوئے گزارتے ہیں۔تاریخی طور پر یہ بات ثابت شدہ ہے کہ 22 مارچ 1940 کو لاہور میں مسلم لیگ کا اجلاس شروع ہوا اور 24 مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان منظور ہوئی۔
1940 سے لیکر 1959 تک ایک بار بھی قرارداد
پاکستان کی یاد میں " یوم پاکستان " نہیں منایا گیا۔
آئین پاکستان خود آئین بنانے والوں کی نظر میں :
23 مارچ 1956 کو منظور ہونے والا وہ آئین جسے پاکستان کی دستور اسمبلی نے اسکندر مرزا اور چودھری محمد علی کی ولولہ انگیز قیادت میں تیار کیا تھا۔ وہ آئین کے جس کے تحت پاکستان برطانیۂ
عظمیٰ کی ڈومینین سے نکل کر ایک خودمختار ملک کی حیثت سے ابھرا تھا اور اسی آئین نے پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا تھا۔ اسکندر مرزا کو جمہوریت اور اس آئین کا کس قدر پاس تھا،اس کی ایک جھلک ان کی سیکریٹری قدرت اللہ شہاب کی آپ بیتی 'شہاب نامہ' میں ملاحظہ فرمائیں، لکھتے ہیں
" 22 ستمبر 1958 کو صدرِ پاکستان اسکندر مرزا نے انھیں بلایا۔ 'ان کے ہاتھ میں پاکستان کے آئین کی ایک جلد تھی۔ انھوں نے اس کتاب کی اشارہ کر کے کہا، 'تم نے اس ٹریش کو پڑھا ہے؟'
'جس آئین کے تحت حلف اٹھا کر وہ کرسیِ صدارت پر براجمان تھے اس کے متعلق ان کی زبان سے ٹریش کا لفظ سن کر
میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔'
خود ایوب خان اپنی کتاب ”فرینڈز ناٹ ماسٹرز“ کے صفحہ نمبر 91 اور 92 پر لکھتے ہیں:چوہدری محمد علی نے جیسے تیسے آئین تیار کرلیا جو 23 مارچ 1956 کو نافذ کیا گیا۔ یہ بڑی مایوس کن دستاویز تھی۔ وزیرِ اعظم، جو اس امر کے سخت متمنی تھے کہ انہیں تاریخ میں آئین
کے مصنف کی حیثیت سے یاد رکھا جائے، نے اپنی کوشش کو کامیاب بنانے کے لیے ہر قسم کے نظریات کو اس آئین میں سمولیا تھا۔ آئین کیا تھا، بس چوں چوں کا مربہ تھا"
ایوب خان اس آئین میں تقسیم اختیارات پر معترض تھے۔ لکھتے ہیں
”اس آئین نے اقتدار کو صدر، وزیرِ اعظم اور اس کی کابینہ اور صوبوں
میں تقسیم کر کے اس کی مرکزیت ہی کو نیست و نابود کر دیا تھا، اور کسی کو صاحبِ اختیار نہیں رہنے دیا تھا۔ قدرت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ جس شخص نے آئین بنایا وہی اس کا پہلا شکار بنا"
پہلے آئین کو اسکندر مرزا نے کچرا اور ایوب خان نے چوں چوں کا مربّہ کہا، بعد میں ان کے آنے والے جانشینوں
نے بھی اسی روایات کو برقرار رکھا،
ضیاء الحق نے 1973 کے آئین کو کاغذ کا ایک ٹکڑا قرار دے کر لپیٹا۔ مشرف آج بھی بڑے فخر سے کہتا ہے کہ "آئین کیا ہے فقط کاغذ کا ایک ٹکڑا ،جسے میں کسی بھی وقت ڈسٹ بن میں پھینک سکتا ہوں "
آج بھی غیر جمہوری قوتیں عوام کو گمراہ کرنے کے لئے صبح شام یہی
راگ آلاپ رہی ہیں، کہ
"آئین مقدم ہے کہ ریاست” ان سقراطوں سے گزارش ہے کہ اگر 1971 میں ہمارے پاس جیسے تیسے بھی آئین کا ایک ٹکڑا ہوتا تو اس میں درج طریقہ کار کے مطابق اقتدار کی منتقلی ہوتی اور پاکستان کبھی نہ ٹوٹتا
1956 کا آئین چونکہ اسکندر مرزا کی نگرانی میں تیار ہوا تھا اور
اس شاطر نے صدر پاکستان کے عہدے میں 58 بی طرزِ کے ایسے شقیں رکھی تھی جس کے وار سے وہ ہر مخالف کو گھر کا رستہ دکھا سکتا تھا۔سب سے پہلے اس نے آئین کے خالق چوھدری محمد علی کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا۔ اس کے بعد دو سال کے اندر تقریباً تین وزیراعظم اس تلوار سے شکار کئے گئے۔
ن میں حسین شہید سہروردی
( 12 اکتوبر 56 تا 17 ستمبر 57 )
آئی آئی چندریگر
( 17 اکتوبر 57 تا 16 دسمبر 57 )
اور
ملک فیروز خان نون
( 16 دسمبر 57 تا سات اکتوبر 58 ) کے نام آتے ہیں
اگر تو اور تاریخ پڑھنی ہے تو لکھیں ورنہ ائین کی اتنی داستان کافی ہے ریفرنسز کے لیے بہت کتابیں ہیں
اور ویسے بھی ہسٹری میں نے نہیں لکھی بلکہ مطالعہ پاکستان نے لکھی ہے لیکن اس تھریڈ کی ہر چیز سچ ہے اور ویگو والے بھائیو پھر بتا دوں میں نے بھی کاپی کیا ہے میرااس کانٹینٹ سے کوئ لینا دینا نہیں 😌😌😌
You can follow @IQamjadID.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled: