(سلطان قطب الدین ایبک)

برصغیر پاک و ہند میں خاندانِ غلاماں کے پہلے ”ترک“ سلطان قطب الدین ایبک کا مقبرہ!

انار کلی بازار لاھور سے ایک سڑک میوہسپتال کی طرف جاتی ہے اسے ایبک روڈ کہتے ہیں۔ اس چھوٹی سی سڑک پر ایک بہت بڑا اور ہندوستان کا پہلا باقاعدہ مسلمان بادشاہ قطب الدین ایبک

1/20
آسودہ خاک ہے۔
قطب الدین ایبک ایک ترک غلام تھا۔ نیشا پور کے قاضی فخر الدین نے اسے ترکستان کے ایک تاجر سے خریدا اور غزنی لے گئے۔ سلطان شہاب الدین غوری کی جہاں دیدہ نگاہوں نے قطب الدین ایبک کی صلاحیتوں کو پہچان لیا اور ایبک کو خرید کر اس کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا

2/20
قطب الدین ایبک نے چھوٹی عمر میں ہی قرآن مجید حفظ کر لیا اور عربی و فارسی علوم پر دسترس حاصل کر لی۔ اس کے علاوہ اس نے حربی کمالات پر بھی عبور حاصل کر لیا

3/20
رفتہ رفتہ اس کی صلاحیتوں اور کمال فن کا ڈنکا بجنے لگا۔ وہ ہر معرکے میں سلطان شہاب الدین غوری کے ہمراہ ہوتا اور اپنی بہادری شجاعت اور ذہانت کے جوہر دکھاتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی صلاحیتوں پر بادشاہ کا اعتماد بڑھتا گیا اور وہ اس کی ذمہ داریوں اور مراتب میں اضافہ کرتا گیا

4/20
قطب الدین ایبک ہر موقع پر بادشاہ کے اعتماد پر پورا اترتا رہا۔ لہٰذا سلطان شہاب الدین غوری نے اسے ہندوستان میں اپنا نائب مقرر کر دیا اور اپنی اکلوتی بیٹی کی شادی بھی اس سے کر دی۔

شہاب الدین غوری کی وفات کے بعد اس کا بھتیجا تخت نشین ہوا تو اس نے قطب الدین ایبک کو ہندوستان کی

5/20
حکومت سونپ دی۔قطب الدین ایبک کی شجاعت اور سخاوت کی داستانیں ہر طرف پھیل چکی تھیں۔ عوام اس سے محبت کرتے تھے۔ لاہور شہر کے باسیوں نے اس کی آمد کی خبر سنی تو ان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ 25 جون 1206ءکو جب وہ لاہور آیا تو اگلے دن اس کی تاج پوشی کا جشن منایا گیا۔اس کے

6/20
عوامی و سماجی بہبود کے کاموں کی وجہ سے عوام میں اس کی مقبولیت بڑھتی گئی۔ وہ اپنی رعایا پر اتنا مہربان تھا کہ پیار اور عقیدت سے لوگ اسے ”لکھ بخش“ اور ”لکھ داتا“ کہتے تھے۔ وہ سخاوت کرنے کے معاملے میں مسلم اور غیر مسلم کا فرق نہیں کرتا تھا۔ اس کی سخاوت کی بارش تمام رعایا پر

7/20
بلاتفریق ہوتی تھی۔ ایک مرتبہ اس کے دربار میں بہت سا مال و اسباب لایا گیا تو ا س نے فوراً وہ سب عوام میں تقسیم کر دیا۔

آج جس جگہ قطب الدین ایبک کا مقبرہ ہے یہاں اس کا وسیع محل ہوا کرتا تھا۔ تب سے اس علاقہ کا نام محلہ قطب غوری مشہور ہے۔ محل اس قدر وسیع و عریض تھا کہ

8/20
قطب الدین ایبک محل میں چوگان یعنی پولو بھی کھیلا کرتا تھا۔ وہ اس کھیل کا بہت شوقین تھا۔ یہی کھیل اس کی موت کا سبب بن گیا۔ 1210ءمیں وہ اپنے محل میں پولو کھیل رہا تھا کہ گھوڑے سے گر پڑا اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ کہا جاتا ہے کہ گھوڑے سے گرتے وقت لوہے کی زین اس کے

9/20
سینے میں پیوست ہو گئی تھی جس کے باعث اس کی موت واقع ہو گئی۔ یوں ہندوستان پر چار سال تک مثالی حکومت کرنے کے بعد وہ اپنے محل میں ہی آسودہ خاک ہوا

10/20
سلطان شمس الدین التمش 1215ءمیں جب لاہور آیا تو وہ سلطان قطب الدین ایبک کے مزار پر حاضر ہوا۔ فاتحہ خوانی کی اور یہاں ایک شاندارمقبرہ تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ اس وسیع و عریض اور خوبصورت مقبرے کی تعمیر پر کثیر دولت خرچ ہوئی۔لوگ بادشاہ سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ ہر سال 14 رجب کو

11/20
بادشاہ کا عرس منایاجاتا تھا۔
تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ عظیم اور ہر دلعزیز بادشاہ قطب الدین ایبک کے شایان شان اس کے مقبرے کی تعمیر کی گئی تھی لیکن مغلیہ دور میں شہر کی توسیع ہوتی گئی تو مقبرہ اور باغ اجڑنے لگا۔ مسلمانوں کے زوال کے بعد دیگر تاریخی عمارات کی طرح یہ مقبرہ

12/20
بھی زمانے کی دست برد کا شکار ہونے لگا۔ رنجیت سنگھ کے دور میں بھی اس مقبرے کو کافی نقصان پہنچا۔ مقبرے سے قیمتی پتھر اور سامان لوٹ لیا گیا اور مقبرے کو خستہ حال چھوڑ دیا گیا۔ انگریز کے دور میں مقبرے کے گردونواح میں آبادی بڑھنے لگی۔ محل کا نام و نشان مٹنے لگا البتہ مقبرے کا

13/20
دروازہ اور قبر موجود رہی۔ انگریزوں نے قبر کی مرمت کروا دی جبکہ میونسپل کمیٹی نے بازار اور گلی کا نام ایبک روڈ رکھ کر اس کا نام مٹنے سے بچا لیا ورنہ شاید لوگ بادشاہ کے نام اور قبر کے محل وقوع کو ہی بھول جاتے۔

انگریز چونکہ مسلمانوں میں ان کے بادشاہوں کے حوالے سے احساس کمتری

14/20
کی کیفیت قائم رکھنا چاہتے تھے اس لئے مسلمانوں کے مطالبے پر مقبرے کو محکمہ آثار قدیمہ کی نگرانی میں دے تو دیا لیکن اس کے تحفظ کے لئے ایسے اقدامات نہ کئے جو ضروری تھے

15/20
نومبر 1953ءمیں حکومت پاکستان نےاس طرف توجہ دی اورمقبرہ قطب الدین ایبک کی نئے سرے سے تعمیر کے لئے محکمہ آثار قدیمہ نے مقبرے کے اردگرد کے مکانات سمیت ڈھائی ایکڑ اراضی خریدی۔ 1968ءمیں مقبرے کی ازسرنو تعمیر کا آغاز ہوا مگر ملکی حالات کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوتا رہا آخر جولائی

16/20
1979ءمیں اس کی تعمیر کا کام مکمل کر لیا گیا۔ مقبرے کی تعمیر پر 921560 روپے لاگت آئی۔ مقبرے کی تعمیر سنگ مرمر اورپیلے پتھر سے کی گئی۔ کوشش کی گئی کہ اسے اسی انداز میں تعمیر کیا جائے جو انداز تعمیر اس دور میں مسلمانوں کا تھا۔
مقبرہ چوکور ہے۔ چاروں طرف سنگ مرمر کی جالیاں لگی

17/20
ہوئی ہیں،فرش اور دیواریں بھی سنگ مرمرکی ہیں۔ مقبرے کا گنبد منفرد انداز کا ہے۔ جس کے وسط میں فانوس لگا ہوا ہے۔ مقبرے کی پیشانی پر کلمہ طیبہ اور قرآنی آیات کندہ ہیں۔ نامور خط حافظ یوسف سدیدی نے فن خطاطی کا ایسا مظاہرہ کیا ہےکہ دیکھنے والے حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ خطاطی کا انداز

18/20
بھی ایبک دور کا اپنایاگیا ہے۔ 6 اپریل 1981ءکو نو تعمیر شدہ مقبرےکا افتتاح وفاقی وزیر ثقافت و سیاحت محمد ارباب نےکیا۔مقبرے کےاحاطے میں چھوٹاسا باغیچہ ہے۔چار دیواری پر قطب مینار بنائے گئے ہیں جو دہلی میں قطب الدین ایبک کےتعمیر کردہ قطب مینار کی یاد دلاتے ہیں۔محمد نعیم مرتضٰی

19/20
نے اپنی کتاب ”نیا لاہور“ میں اس مقبرے کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔

انارکلی میں خریداری کے لئےآنےوالے اورغیر ملکی سیاح مقبرہ دیکھنے ضرور آتے ہیں۔ قطب الدین ایبک کا نام اپنے عدل و انصاف بہادری و شجاعت اورسخاوت و خدا ترسی کی وجہ سے تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا.

20/20 مکمل

#جاوید
You can follow @JavaidMongol.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled: