چلیں آج بلوچستان کی تاریخ پر کچھ بات کر لیتےہیں۔آپ کواپنےاعتراض کا جواب بھی مل جائےگا۔

قیام پاکستان کے وقت موجودہ
 بلوچستان برطانیہ کے قوانین کے مطابق 6چھ حصوں میں تقسیم تھا برطانوی بلوچستان جوکہ کوئٹہ کوہلو ڈیرہ بگٹی،پشین،لورالائی،ژوب ،سبی
اورچاغئی کےاضلاع پرمشتمل تھا۔+1/17 https://twitter.com/MoazzamAbidi/status/1283275413121269761
ریاستی بلوچستان 
ریاست قلات،ریاست خاران، ریاست
مکران ریاست لسبیلہ پر مشتمل تھا۔
ان پانچ حصوں کے علاوہ گوادرکی
بندرگاہ تھی جومسقط اور اومان کی حکومت کاحصہ تھی گوادرکی حکمرانی اوراس کاکسی بھی طرح کاکوئی تعلق برطانیہ یا بلوچستان کی کسی ریاست کےساتھ نہیں تھایہ چھ  کےچھ حصے +2/17
مکمل طورپرعلیحدہ تھے ان کا نظام اوران کےحکمران مکمل طور پر آزاد تھےیہ مشرقی بنگال ،سندھ ،پنجاب اور صوبہ سرحد کی طرح برطانوی راج کا باقاعدہ حصہ نہیں تھے اوران پر صرف برطانوی ایجنٹ نگران تھا برطانوی حکومت کے قوانین کے مطابق ریاستی بلوچستان کی ریاستوں کی اور ان  کے حکمرانوں+3/17
کی حیثیت کسی بھی طرح برصغیر کی دیگر ریاستوں حیدراباد دکن،مالیر کوٹلہ،محمودآباد،بھوپال،میسور،سے کم نہیں تھی یہ ہی وجہ تھی کہ حکومت برطانیہ نےجب برصغیر کو چھوڑنے اور اس کوآزاد کرنےکافیصلہ کیاتو انہوں نے برصغیر کی دیگر ریاستوں کے حکمرانوں کی مانند بلوچستان کی چاروں ریاستوں کے+4/17
حکمرانوں کوتحریری طور پر اطلاع دی کہ وہ  برصغیر کی حکومت کو چھوڑ رہے ہیں اوراس خطے میں پاکستان قائم ہو رہا ہےاس لیئے اپنی ریاست کے معاملات مل کر طےکر لیں برطانوی حکومت کےافسروں نے قلات کے حکمرانوں  سمیت چاروں بلوچ ریاستوں کے حکمرانوں اور سرداروں کوباقائدہ خطوط لکھے۔ان میں+5/17
سب سے بڑی ریاست قلات کی تھی جس کے حکمران خان قلات میراحمد یارخان نے قیام پاکستان سےدوروز قبل اپنی ریاست کی مکمل آزادی کااعلان کیاتھا اورپاکستان کےساتھ خصوصی تعلقات پرمذاکرات کی پیشکش کی تھی۔خان قلات کےاس اقدام کی دوسرےتمام بلوچ سرداروں نےحمایت کی تھی اور بلوچستان کی علحیدہ +6/17
حیثیت برقرار رکھنےپر زور دیا تھا۔لیکن پاکستان نےخان قلات کےاس اقدام کوبغاوت سےتعبیر کیااور پاکستانی افواج نےخان قلات اور ان کی ریاست کےخلاف کاروائی کی آخرکارمئی 1948میں خان قلات کوگھٹنےٹیک دینےپڑےاوروہ پاکستان میں شمولیت پرمجبورہوگئے۔ان کے چھوٹےبھائی شہزادمیرعبدالکریم نے +7/17
البتہ قلات کی پاکستان میں شمولیت کےخلاف مسلح بغاوت کی اورآخر کار انہیں افغانستان فرار ہوناپڑا-یہ پاکستان میں بلوچوں کے خلاف پہلی فوجی کاروائی تھی اور یوں بلوچوں اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی بنیاد کی پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی ثابت ہوئی پچیس برس تک بلوچستان گورنر جنرل کے ۔۔
+8/17197
براہ راست کنٹرول میں رہااور وہاں کے عوام اپنے منتخب نمائندوں کی حکومت سے محروم رہے۔1956 کےآئین کےتحت بلوچستان کو مغربی پاکستان کےایک یونٹ میں ضم کردیاگیاجس کےخلاف پھرخان قلات کی قیادت میں بلوچوں نےمزاحمتی تحریک شروع کی۔لیکن ایوب خان کی حکومت نے بلوچستان پرفوج کشی کی اور+9/17
اس تحریک کو
کچلنےکی کوشش کی۔1970میں جب جنرل یحی خان نےمغربی پاکستان کاون یونٹ توڑاتوبلوچستان ایک الگ صوبہ بنااورپہلی بارصوبہ کےعوام کوعام انتخابات میں اپنےنمائندوں کےانتخاب کاموقع ملا۔بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی فاتح رہی اور1972میں پہلی باربلوچستان میں حکومت قائم ہوئی۔+10/17
لیکن یہ دیرپاثابت نہ ہوسکی بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت نےجب داخلی خودمختاری کامطالبہ کیا تو وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹونےبلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت برطرف کرکےاسمبلی توڑدی اورگورنر
راج نافذکردیا۔بھٹو کےاس اقدام کے
خلاف بلوچوں نےاپنےسرداروں کی قیادت+11/17
میں مسلح جدوجہدشروع کردی۔ساٹھ ہزارسےزیادہ بلوچ قبائل چھ سال تک پہاڑوں سےپاکستانی فوج کےخلاف چھاپہ مارجنگ لڑتےرہےاوراپنے
دیہاتوں پرفضائی بمباری اورگولہ باری کاسامناکرتےرہےجنرل ضیاالحق نےاپنے اقتدار کی ضرورت اورفوجی مصلحتوں کے پیش نظر گیارہ ہزار زیر حراست سرداروں اور ان کے +12/17
چھاپہ ماروں کو رہا کر کے بلوچوں سے صلح کرلی۔ پھر مشرف کے دور میں اکبر بگٹی کےقتل کےبعد حالات ایک بار پھر بگڑ گئے۔دراصل بدقسمتی سے پاکستان کی بلوچستان کے ساتھ وعدہ خلافیوں اور زیادتیوں کی داستان بہت طویل ہے۔محمد علی جناح،سکندر مرزا،ایوب خان،یحیٰی خان،بھٹو،ضیاء،اورمشرف+13/17
سب کےسب یہی کام کرتےآئےہیں۔
خان آف قلات نےبانی پاکستان محمد علی جناح کوسونےسے تولاتھاتو
پاکستانی ریاست نےوہ احسان اسی وقت بلوچستان کوپاکستان کاحصہ بنانےکیلیےاسکندرمرزا کی قیادت میں توپ خانہ بھیج کرقلات اسمبلی پرسبز پرچم لہراکر دیا۔ایوب خان نے80 سالہ نوروزخان کوقران بھیجا+14/17
تھاکہ وہ پہاڑوں سےاترآئےتو اسےکچھ نہیں کہاجائےگا۔بعدمیں نوروزخان کےسامنےاسکےبھائیوں اور بھتیجوں کوپھانسی دےدی گئی تھی۔
ذوالفقارعلی بھٹو نےقوم کومتفق دستوردینےکےلئیےایک حکمت عملی کےتحت نیپ کے بلوچ اورپختون رہنماؤں غوث بخش بزنجو،ولی خان وغیرہ کو آئین پر دستخط کرنے کے لئیے۔۔+15/17
راضی کرلیاتھا۔بدقسمتی سےابھی اس آئین پر دستخطوں کی سیاہی ہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ بلوچستان میں مینگل اوربزنجوکی حکومت ختم کرکےجنرل ٹکاخان کی قیادت میں بلوچستان پر گورنرراج لگادیا گیا۔
بلوچ جوانوں کی گمشدگی اورمسخ شدہ لاشوں کاملناروز کا معمول بن چکا ہے۔افسوس کےملک کےباقی۔۔+16/17
حصوں کےعوام اورسول سوسائٹی بلوچ قوم کی نسل کشی پربلکل گونگے بہرےبنےہوئےہیں۔ہمیں فلسطینیوں
کشمیریوں اوردنیاکےدیگرحصوں سےمظلموں کی فریادتوسنائی دیتی ہےمگربلوچ ماؤں بہنوں کی آہ وزاری اورفریادسننےسےھم قاصرہیں جانے
مظلوم بلوچ قوم کی نسل کشی اورظلم وذیادتی کب تک جاری رہے گی۔17/17
You can follow @zahida_rahim.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled: