پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی قیادت جو عمران خان کو سلیکٹڈ اور نااہل کہتے نہیں تھکتی۔ ان سے ہمارا صرف ایک مطالبہ ہےکہ آپ نواز شریف، زرداری، مریم اور بلاول سے کہیں کہ وہ اور کچھ نہیں تو بس پینل ڈسکشن والے ٹاک شوز میں ہی بیٹھ کر دکھا دیں جیسے 2003 سے لیکر اکتوبر 2011 تک عمران خان [1]
بیٹھتا رہا ہے۔
اُس نے تو شیر افگن نیازی، محمد علی درانی، شیخ رشید اور بابر غوری سے لیکر فوزیہ وہاب، خورشید شاہ اور فیصل رضاعابدی تک ہر ایک کیساتھ مباحثہ کیا ہوا ہے۔ سلیم صافی، افتخار فتنہ اور ثنا ٹُچہ جیسے لوگوں کو انٹرویو دیے ہوئے ہیں۔

مریم اور بلاول سے کہیں کہ مراد سعید [2]
یا فیصل واڈا کیساتھ ہمت کرکے کسی ٹاک شو میں بیٹھیں تو سہی، چلیں انکو چھوڑیں اسد عمر حماد اظہر کیساتھ ہی کسی پینل میں بیٹھ جائیں۔
عمران خان تو ذاتی حملوں سے لیکر اپنی جائیداد کے بارے میں تند و تیز سوالات اور گھٹیا جملوں تک کا سامنا کرتا رہا ہے۔
2007 کی وکلا تحریک کے دوران روز [3]
رات سات سے لیکر گیارہ بجے تک کے ٹاک شوز میں حکومتی غنڈوں کا سامنا کرنا، پھر 2008سے لیکر 2010 تک پیپلز پارٹی اور 2011 کے بعد سے نون لیگی میڈیائی اینکروں کے سامنے بیٹھنا - ان کاموں کے لئے جِگرا اور دل گُردہ چاہیے ہوتا ہے۔

اگلا بغیر کسی سیاسی خاندان یا پسِ منظر کے اکیلا چلا تھا [4]
1997 اور 2002 کے انتخابات کی تضحیک آمیز شکستیں برداشت کیں اُسنے، پنجاب یونیورسٹی کے جماعتی غنڈوں کے ہاتھوں مار کھائی اُسنے، کم ہمت پارٹی ممبرز نے ساتھ چھوڑا، کم عقل عوام نے بھی بات نہ سنی، 2008 کےانتخابات میں APDM کا دغا اور فریب دیکھا [5]
انتھک محنت سے اپنی پارٹی کھڑی کی، گندے گندے لوگوں کے گھٹیا جملے برداشت کیے، دو مافیا “سیاہ سی” جماعتوں سے ٹکرا کر یہاں تک پہنچا ہے مگر ابھی بھی “کرسی” کا مرہونِ منت نہیں، اگلا آزاد مرد ہے اور کبھی بھی ٹھوکر مار کر دوبارہ عوام کے سامنے آسکتا ہے۔
اسی لئے “سب” اُسکی موجودگی سے [6]
خائف ہیں اور کھنچے کھنچے رہتے ہیں کہ “یہ ہم میں سے نہیں”

اور اِس عمران خان کو “سلیکٹڈ” وہ لونڈا کہتا ہے جسکو دہائیوں پرانی اور “سسٹم” میں گہری جڑیں رکھنے والی جماعت کی قیادت فقط اِس “کارنامے” پہ ملی ہے کہ اُسنے بینظیر کے بطن سے جنم لیا۔سبحان اللہ [7]
دوسری طرف محترمہ مریم نواز ہیں جو آج کل مصلحتاً خاموش ہیں تاکہ وہ جنہوں نے مرحوم دادا جان کی کسی “ادا” سے خوش ہو کر ابا حضور کو گوالمنڈی سے اُٹھا کر ڈائریکٹ پنجاب کا وزیرِ خزانہ لگا دیا تھا وہ “مردانِ خاکی” دوبارہ مائل بہ کرم ہو جائیں۔ یہی مریم بی بی جن دنوں بولا کرتی [8]
تھیں تو انکے ہونٹوں ہمہ وقت “نااہل نااہل” کی گردان ہوا کرتی تھی۔ محترمہ انکی اپنی علمی “اہلیت” کی داستان یہ ہے کہ اباجی وزیراعظم نہ ہوتے تو شاید فرسٹ ائیر میں دو دفعہ سپلی کے پیپروں میں فیل ہونے کے بعد پیِا گھر سُدھار چکی ہوتیں[9]
سیاسی “اہلیت” یہ ہے کہ ایک دفعہ ہمت کر کے ثنا بچہ کے ساتھ ملکر “جعلی مقابلہ” کرنے کی جسارت کی تو ایسی بونگی ماری کہ آجتک پورا خاندان اُسی کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔
اِن دونوں کے لئے عمران خان ایک آئینہ بنا ہوا ہے ایک کو سرِ آئینہ “سلیکٹڈ” اور دوسرے کو “نااہل” کا عکس نظر آتا ہے [10]
باقی ان دونوں ہونہاروں کیلئے نصیحت کہ تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ جب بادشاہت، بغیر مشکلات کا سامنا کیے، ورثے میں عطا ہو رہی ہو تو پھر سلطنت نہیں سنبھالی جاتی۔
اِسلئے پیاری مریم اور عزیز بلاول!
ذرا شفقتِ پِدری کے سایہ سے نکل کر دھوپ میں آؤ، اپنے انکلوں اور آنٹیوں کی انگلی چھوڑو [11]
تھوڑا اپنے قدموں پہ کھڑا ہونا سیکھو اور ذرا شیشے کے گھروں سے باہر نکل کر بے مروت اور بدلحاظ ہجوم کا آگے تو آؤ، ذرا سنگِ دشنام اور تیرِ الزام کا خود سے سامنا تو کرو کہ بقول خواجہ حیدر علی آتش:

سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تُجھ سے خلقِ خُدا غائبانہ کیا
You can follow @SaadSaeed2.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled: