کامریڈ منور حسن جب کال مارکس و لینن کے قبیلے میں تھے تو پچھلی نہیں اگلی صف کے جنگجو تھے ، نجانے کونسا لمحہ تھا جب انکے دل پہ سید مودودی کے لٹریچر نے نقب لگائی کمیونزم کی پکی دیوار ڈھنے لگی اور دھیرے دھیرے وہ اپنی اول صف چھوڑ کر اپنے بدترین نظریاتی مخالفین کی صفوں میں جا پہنچے 1
وه بھی بالکل اگلی کہنے کو یہ ایک قبیلے سے دوسرے کو ہجرت تھی مگر یہ سب اتنا آسان نہ تھا کامریڈ منور اب مجاہد منور تھے نظریات کی اس تبدیلی نے ایسے شاندار فکری سیاسی سماجی اثرات مرتب کئیے کہ دوست تو دوست دشمن بھی انکی استقامت حق گوئی یکسوئی سادگی قناعت اور دیانت کے مداح ٹھہرے 2
سید منور حسن کی کہانی صدیوں پہلے گزرے کسی کردار کی نہیں یہ اسی تیز رفتار جدید اور ٹیکنالوجی سے آراستہ دنیا کے جیتے جاگتے ایسے شخص کی کہانی ہے کہ جسکے عہد میں رہنا اس سے ملنا اسے سننا بلاشبہ ایک سعادت تھی اور میں شکر و فخر کے جذبات کیساتھ کہتا ہوں گاھے مجھے انکی صحبت میسر رہی ۔
3
سید منور حسن کے بارے میں کہاں سے شروع کریں ؟ کیا کہیں ؟ کیا چھوڑ دیں ، سمجھ ہی نہیں آتا سید اپنے کردار و افکار میں ماضی کا ایسا افسانوی درویش نظر آتے جو زماں و مکاں کی قید سے ماورا ہوکر ہمارے درمیان آن کھڑا تھا ، اس حوصلے ہمت اور جرات کیساتھ کہ لوگ انکی شخصیت پہ اش اش کر اٹھے
4
کئی بار انہوں نے یوں حیران کیا کہ انگلیاں دانتوں تلے داب کر لوگ ششدر دیکھتے رہ گئے کیونکه وه بات جسے بولنے میں طاقتور گروهوں کا کلیجه منه کو آتا ، یوں آسانی سے کهه کر اپنی راه لیتے گویا یه محض ایک بات هو اس سے بڑھ کر کچھ نہیں ۔
5
6
منور حسن نے ساٹھ کی دھائی میں جب سوشیالوجی کی سند حاصل کی تو امکانات کا ایک جہاں انکے آگے در وا کئیے کھڑا تھا ملک بنے کم ہی عرصہ ہوا تھا نوکری تو اسے بھی اچھی مل جاتی جو میٹرک پاس ہوتا یہاں تو معاملہ ہی اور تھا نہ صرف سوشیالوجی بلکہ اسلامی اسٹڈیز میں بھی ایم اے کرچکے تھے
نوکری اور وہ بھی اچھی نوکری ہاتھ باندھے کھڑی تھی مگر رگوں میں دوڑتا حسینی خون کچھ اور ہی فیصلہ کرچکا تھا سی ایس ایس کرکے ڈی ایم جی گروپ کا حصہ بننے کا سوچا نہ ہی کسی تعلیمی ادارہ کا پروفیسر بنکر وائس چانسلر کی نشست پہ نگاہ رکھی
7
یہ درویش صفت انسان تھا نظریات کا آدمی جو اپنے فکر و فلسفے نظریات سے آگے بڑھنے طاغوت و سہولت کاروں کو للکارنے انکی صفیں الٹنے کا سودا کرچکا تھا جاننے والے جانتے ہیں دیکھنے والے دیکھتے ہیں سید زادے نے پھر آخری سانس تک اس عہد کو نبھایا جو اس نے چڑھتی جوانی میں اپنے رب سے کیا
8
جاننے والے جانتے دیکھنے والے دیکھتے ہیں سید زادے نے پھر آخری سانس تک عہد کو نبھایا جو اس نے جوانی میں رب سے کیا
جماعت اسلامی کے سربراہ بنے تو سیاست اس رخ پہ لے گئے جو یہاں پاپولر نہ تھی مگر نه صرف دلوں میں جگه بنانے لگے بلکه‌گیلیپ سروے میں مقبول قیادت کی صف میں بھی نظر آئے
9
وہ دھشتگردی کیخلاف جنگ کو امریکی جنگ قرار دیکر اسوقت کے آرمی چیف جنرل کیانی سے کم و بیش ہر جلسے میں سود و زیاں کا براه راست حساب طلب کرتے ڈرون حملے ہوں جعلی مقابلے گمشدگیاں یا بلوچ و قبائل کے مسائل و مطالبات وہ بلند آہنگ اس پہ بات کرتے سوال اٹھاتے تحرک‌ پیدا کرتے مہمات چلاتے
10
ظاہر ہے کہ میڈیا ایسی تقاریر کی براہ راست کوریج کرنے سے تو رہا سو انہیں خاص وقت نہ ملتا لیکن سید اس سے بے پروا تھے وہ پاپولر مؤقف کیساتھ نہیں درست بات کیساتھ کھڑے تھے یه بھی فسانه هے که آج پوری ریاست حال دل سناتے بولتی هے که بلاشبه وه هماری نہیں غیروں کی جنگ تھی
11
فرق یه هے که جب سید یہ کہتےتو برا لگتا سید اپنی ہر تقریر میں بلوچوں کا ذکر کرتے ریاست سے انکے دکھوں کا مداوا کرنے کا مطالبه کرتے یوں انہوں نے جماعت کے لوگو کی توجہ شام غزہ اور افغان و کشمیر کے مظلومو کیساتھ بلوچستان و قبائل کے مسلمانو کیطرف بھی خوب متوجہ کرائی ۔
12
درویش صفت سید منور حسن کی عظمت ایسی کہ سر بلند کرکے دیکھو تو دستار گر پڑے جو راستہ سید نے اختیار کیا اس پہ دستار تو ایک طرف سر ہی سلامت نہیں رہتا لیکن جذبہ عشق و مستی کا مسافر اپنی دھن میں مگن چلتا رہا طنز طعنے ملامت گالیاں بلاوے نوٹس دھمکیاں کوئی اسکی راہ کھوٹی کر ہی نہ سکے
13
انکی شخصیت بیک وقت تندی و نرم خوئی طنز و مزاح اور استقامت کا امتزاج تھی
سید کی زندگی کے آخری بیس دن ناظم آباد کے ایک ایسے اسپتال میں گزارے جسے سارے کراچی کے لوگ بھی شاید نہ جانتے ہوں سید متوسط طبقے کے علاقے شادمان ٹاؤن میں ایک سو بیس گز یا پانچ مرلے کے مکان میں رھتے تھے
14
دل پہ ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا کسی جماعت کا قائد پانچ مرلے کے مکان میں زندگی گزارتا ملے گا؟ایسا نہیں کہ سید دنیا کما نہیں سکتے تھے واللہ دنیا انکے آگے ایسے جھولی پھیلائے کھڑی تھی کہ ہم جیسے موت تک اسکی حسرت کرتے رہیں معاملہ مگر درویشی خدا خوفی اور دنیا سے بے رغبتی کا تھا
15
میری خوش قسمتی اور سرمایہ حیات میں بہترین اضافہ سید کی رفاقت رہی گو کہ بہت زیادہ نہ تھی لیکن جتنی تھی بےتکلفی سے عبارت تھی ایک بار زاہد علی خان صاحب کے ہمراہ دوپہر کے کھانے پہ بلایا دال چاول سلاد اور سبزی پیش کردی پھر چائے کے بعد گفتگو کا طویل دور چلا
16
17
اسلامک ریسرچ اکیڈمی میں صبح دس تا تین بجے تک روز ہی ملتے انکی میز نت نئی کتب سے بھری رھتی میری سعادت کہ میری کتاب طویل عرصے تک انکی میز کی زینت رہی صاحب مطالعه تھے حیرت که پڑھنے تقاریر کرنے سیاست و تنظیم دیکھنے اور عبادات میں مگن رهنے کا وقت آسانی سے نکال لیتے
سید چلے گئے انکے ساتھ وہ عہد بھی چلا گیا جسکے روشن تذکرے طویل عرصے تک ہوتے رہیں گے
اللہ پاک اس نفس مطمئنہ کو اپنی ابدی جنتوں کا مکین بنائے جسکے حصول کی خاطر اس نے عارضی مگر آنکھوں کو خیرہ کرتی چمک والی دنیا کو حقیر جانا اور موت سے پہلے موت کے بعد والی زندگی کی تیاری کی
رحمه الله
You can follow @FaizullahSwati.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled: