دانشور کون ہے؟

تحریر ڈاکٹر مبارک علی

ہمارے معاشرے میں اکثر یہ سوال بحث و مباحثہ کا باعث بنتا ہے کہ ہمارے دانشو ر اپنا صحیح او ر مثبت کردار ادا نہیں کررہے ہیں۔ بلکہ یہ وقت کے دھارے کے ساتھ بہہ جاتے ہیں اور اپنی دانش ، عقل ، تجربہ اور آگہی کو سستے داموں فروخت کر دیتے ہیں۔+1/17
اس لیے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ایسے لوگوں کو دانشور بھی مانیں یا نہیں۔ کیونکہ اگر اس کی صحیح تعریف کی جائے تو ہم دانشور ایک ایسے شخص کو کہیں گے جو معاشرے کی پائیدار ، مستحکم اور تسلیم شدہ روایات و اداروں سے بغاوت کرکے، نئے خیالات و افکار کی تبلیغ و تشہیر کرتا ہے۔ +2/17
آج سےبہت پہلےسترویں صدی میں ابوالفضل نے آئین اکبری میں لکھا تھا کہ تقلید سے پرہیز کرنا چاہیے اور ہر موجود روایت و فکر کوچیلنج کرنا چاہیے اور کسی نظریہ اور خیال کو اس وقت تک قبول نہیں کر ناچاہیے کہ جب تک وہ عقل کی کسوٹی پر پورانہ اترے۔
لہذاایک دانشورکاکام تقلیدنہیں ہوتا ہے۔+3/17
اسے موجود نظام اور خیالات کو نئے معنی و مفہوم کا لباد ہ پہنا کر انہیں جدید قالب میں ڈھالنے کی کوشش نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ اصطلاح کے بجائے یا ترمیم کے بجائے وہ انہیں چیلنج کرکے انہیں اپناتا ہے اور پھر ان کی جگہ خلا نہیں رہنے دیتا ہے بلکہ اس خلا کو نئے افکار سے پُر کرتا ہے۔+4/17
یہ اس کا تخلیق عمل ہوتا ہے کہ جو اسے صحیح اور بامعنی دانشور بناتا ہے۔
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کیوں مستحکم اور قدیم روایات سے بغاوت کرتاہے؟اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ روایات ور ادارے ایک وقت پر آ کر حکمران طبقوں اورطاقتور جماعتوں کے مفادات کی خدمات کرنے لگتے ہیں ۔+5/17
مزیدیہ کہ وہ نظام کہ جوقدیم روایات کےسہارےکھڑا ہوتاہےتبدیل
ہوتےزمانےاورتقاضوں کوپورا کرنےسے قاصرہوجاتاہےآہستہ آہستہ یہ کھوکھلا ہوکردم توڑدیتاہے۔اس لیےاگرمعاشرہ میں ایسےدانشور نہ ہوں کہ جونئے خیالات وافکارتخلیق کرتےرہیں کہ معاشرہ وقت وحالات کےتحت چیلنجوں کاموثرجواب دیتارہے۔+6/17
توایسامعاشرہ مسلسل پسماندہ ہوتاچلاجاتاہے۔اس کی پسماندگی میں وہ نام نہاددانشوربھی حصہ لیتےہیں کہ جواپنی تحریروں اور تقریروں سے اس نظام کوسہارادیتے ہیں۔
ان حالات میں ہوتایہ ہےکہ جو دانشور معاشرے کی استحکام شدہ روایات سے بغاوت کرتےہیں ان کا شمارباغیوں اور منحرفین میں ہوتاہے۔ +7/17
ان کی مثال ایسی ہوتی ہےجیسی کہ سیاسی باغیوں کی۔جو حکمران کے تسلط اوراقتدارکو چیلنج کرتے ہیں اسےغداری تصورکیاجاتاہےاور یہ سیاسی باغی سخت سزاکےمستحق ہوتےہیں۔کم و بیش یہی صورتحال ذہنی باغیوں کی ہوتی ہےان کی بغاوت کونہ صرف حکمران طبقوں بلکہ معاشرےکی اکثریت میں ناپسندکیا جاتا ہے+8/17
اورسزا کے طورپرانہیں معاشرےسے خارج کردیاجاتاہے۔
ان کےخیالات و افکار کو معاشرے کے استحکام اور امن کےلیےخطرناک سمجھتےہوئےانہیں سنسرکیا جاتا ہے ان کی کتابیں جلائی جاتی ہیں اور انہیں معاش کے تمام ذرائع سے محروم کر دیا جاتاہے۔ اب اگر کوئی معاشرہ مستقل پسماندگی کا شکار رہتا ہے +9/17
یاخاص طورسےیہ عمل آمرانہ حکومتوں یانظریاتی ریاستوں میں زیادہ ہوتاہےجہاں مخالف خیالات کو قطعی برداشت نہیں کیاجاتاکیونکہ یہ ا نکےمفادمیں نہیں ہوتاکہ ذہنی طورپرتبدیلی آئے،لوگوں میں شعور پیداہو۔
ان حالات میں منحرف دانشورراندہ درگاہ ہوتےہیں بلکہ تاریخ بھی انہیں فراموش کردیتی ہے+8/17
لیکن اگرکسی مرحلہ پرمعاشرہ تبدیلی کےلیےتیارہوتو اس صورت میں یہ دانشوراندھیروں سےباہر آتےہیں اور معاشرہ ان کےافکارو نظریات کواپنے لیےمشعل راہ بناتاہے۔
مسلمان معاشرہ کایہ المیہ رہاہےکہ اس نےان دانشوروں کوجنہوں نےتقلیدکے بجائےتخلیق کاراستہ اختیارکیاانہیں اپناماننےسےانکارکریا۔ +9/17
کندی،رازی،فارابی،ابن رشد،ابن سینا اورابوالفضل آج بھی باغی ہیں اور ناقابل معافی ہیں۔جب کہ امام ابن تیمیہ،امام غزالی،اشعری اوراحمد سرہندی نظریاتی رہنما ہیں۔
ایک دانشورکےلیےیہ بھی ضروری ہے کہ وہ ریاست کاحصہ نہ بنےبلکہ اس سےدور رہے۔کیونکہ حکمران طبقے،ریاست اوراس کےاداروں کو+10/17
اپنے مقاصدکےلیےاستعمال کرتےہیں اورجب یہ مقاصدپورےہوجاتےہیں تووہ ان تمام لوگوں کوجواس میں شریک تھے اس کاسحرایک طرف پھینک دیتےہیں۔مزیدیہ کہ ریاست کےمقاصدہمیشہ وقتی ہوتےہیں وہ حالات کےتحت خود کوبدلتی ہےاوروقت کےبدلنےکےساتھ ہی اپنےخیالات وافکارسےبھی منکر ہوجاتی ہے۔+11/17
اس کی ایک مثال عہد عباسیہ میں مامون کی ہے کہ جس نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے معتزلہ کی سرپرستی کی مگر اس کے بعد جب اس کے جانشینوں کو اس کی ضرورت نہیں رہی تو انہوں نے اس تحریک کو کچل کر رکھا دیا۔
لہذا دانشور کو سیاست کی سرپرستی سے بالاتر ہو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ +12/17
اگرچہ اس میں دشواریاں اورخطرات ہیں مگراس کےعلاوہ اس کےلیےاور کوئی دوسراراستہ نہیں ہےوہ ایک طرف اپنی تخلیق کی آگ میں جلتاہے تو دوسری طرف معاشرےکی نفرت کو برداشت کرتاہےاسی اذیت میں اس کی زندگی گذرتی ہے۔
اس وجہ سے دانشورکوکسی صلہ ، انعام، تحفہ اور شہرت کی تمنا نہیں ہوتی ہے۔+ 13/17
وہ بغاوت اس لیے کرتا ہے کہ اس سے اس کے اندر کی تخلیقی قوتوں اور توانائیوں کو جلاملتی ہے ۔ وہ انحراف اس لیے کرتا ہے کہ اس سے اس کی شخصیت کی تکمیل ہوتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی خواہش یہی ہوتی ہے کہ معاشرہ کا ذہنی جمود ٹوٹے اور ایک ہلچل ہو کہ معاشرہ آگے بڑھ سکے۔ +14/17
لوگوں کو نئی راہ نظر آ سکے اور لوگ ذہنی طور پر پختگی حاصل کر سکیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کو ایسے دانشوروں کی ضرورت ہے یا ان لکھنے والوں کی جو کہ پرانی شراب کو نئی بوتلوں میں ڈال کر لوگوں کو گمراہ کرنے میں مصروف ہیں؟15/17
You can follow @zahida_rahim.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled: