پشاور ھائی کورٹ کا ایک اور ہتھوڑا
پشاور ھائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ نے آج 200 مزید دہشتگردوں کی سزائیں کلعدم قرار دے دیں۔ یوں جسٹس وقار سیٹھ کے ہاتھوں رہائی پانے والے دہشتگردوں کی تعداد 400 کے قریب ہوگئی ہے۔
@mjdawar
یہ دہشت گرد10 سال کی جنگ اور ہزاروں جانوں کی قربانیاں دے کر پکڑے گئے تھے جن کو جسٹس وقار سیٹھ نے بیک جننش قلم رہا کر دیا۔ پاکستان بھر میں آگ لگانے والے ان دہشت گردوں کے ہاتھوں پر ہزاروں لوگوں کا خون ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ریاست یا افواج پاکستان کے خلاف کسی بھی جرم میں ملوث کوئی شخص ان جج صاحب کی عدالت کی دیوار چھو لے تو بری ہوجاتا ہے۔ چاہے وہ کوئی دہشت گرد ہو یا ریاست کو توڑنے کے نعرے لگانے والاPTM کا کوئی کارکن۔سوشل میڈیا پر جج صاحب کو "دہشت گردوں کا مسیحا" بھی کہا جاتا ہے۔
یوں آئین کی رو سے مشرف قابل سزا نہیں تھا۔ لیکن اسی جسٹس وقار سیٹھ نے 2007ء کے واقعے کو 2009ء میں بنائے گئے قانون کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے مشرف کو تین دن تک پھانسی پر لٹکائے رکھنے اور اس کی لاش کو گھسیٹنے کا حکم جاری کیا۔
اس کے ساتھ ہی آج پشاور ھائی کورٹ نے عمران خان سمیت کئی حکومتی نمائندوں کو توہین عدالت کا نوٹس بھی بھیجا جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ عمران خان اور اس کے بعض وزیروں اور مشیروں کے کچھ الفاظ سے جسٹس وقار سیٹھ کی "توہین کو پہلو" جھلکتا تھا جس پر ذمہ داروں کی سرکوبی ضروری ہے۔
جسٹس وقار سیٹھ سرخہ ہے اور گومل یونیورسٹی میں اے این پی کی پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کا صدر تھا۔ سرخوں کی ریاست پاکستان اور افواج پاکستان سے نفرت سے کون واقف نہیں؟
یہی نفرت جسٹس صاحب کے فیصلوں میں بھی جھلکتی ہے۔
اب یہاں کوئی آکر کہہ دے گا کہ "نئی قانون سازی کی ضرورت ہے، ججز معصوم ہیں اور قانون میں کجی ہے۔تو اس کا جواب بھی سن لیں۔ قانون کی تشریح کا حق ججز کے پاس ہے۔ اور ان کی کی گئی تشریح پر اعتراض بھی کوئی جج ہی کرسکتا ہے۔
میں یا آپ کریں تو "توہین عدالت"
لیکن نہ صرف وہ اپیل کر رہے ہیں بلکہ ان کی سزائیں بھی کلعدم قرار دی جارہی ہیں۔
یعنی قانون موجود ہے لیکن تشریح کا حق جج کے پاس ہے۔ اور جج "اپیل نہیں کر سکیں گے" کی تشریح " اپیل کر سکیں گے" کریں تو انکو صرف کوئی جج ہی پوچھ سکتا ہے۔
ایک اور مثال دیتا ہوں۔
آئین پاکستان کی رو سے کسی شخص کو کسی ایسے قانون کے توڑنے پر سزا نہیں دی جاسکتی جو بعد میں بنایا گیا ہو۔ یعنی مشرف نے 2007ء میں ایمرجنسی نافذ کی، لیکن اس پر قانون 2009ء میں بنا کہ اس قسم کی ایمرجنسی نافذ کرنا "سنگین غداری" کہلائیگا۔
ججوں کا تقرر ججز خود کرتے ہیں
ھائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا جج بننے کے لیے کم از کم15 سال وکالت کی شرط ہے۔ اب اس پر خود غور کریں، 15سال سائیلین کا خون چوس چوس کر عدالتوں میں جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرکر کے جب یہ سب کچھ مزاج میں رچ بس جاتا ہے تب بندہ اعلی عدلیہ کا جج بنتا ہے
میں آپ کو دو مثالیں دیتا ہوں۔
جب دہشت گردی عروج پر تھی اور عدالتیں خوف کی وجہ سے مسلسل دہشتگردوں کو رہائیاں دے رہی تھی۔تب عدالتی نظام فیل ہونے پر آرمی عدالتیں بنانے کا فیصلہ کیا گیا اس میں یہ شرط بھی رکھی گئی کہ آرمی عدالتوں سے سزائیں پانے والے دہشت گرد کہیں اپیل نہیں کر سکیں گے
You can follow @TamkenatAli.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled: