ایک وقت تھا کہ کلیات اقبال میرے لیے آسمانی صحیفے کا درجہ رکھتی تھی۔ جیسے کارل مارکس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا کہ
آں کلیم بے تجلی، آں مسیح بے صلیب
نیست پیغمبر ولیکن در بغل دارد کتاب
”وہ پیغمبر تو نہیں ہے لیکن اس کی بغل میں کتاب ہے“۔ ۔۔+1/13
اسی طرح اقبال بھی میرے نزدیک پیغمبر تو نہیں تھالیکن اس نے بھی اپنی بغل میں کتاب داب رکھی تھی۔ شاعر مشرق، حکیم الامت، مفکر پاکستان حضرت علامہ اقبال علیہ رحمتہ اللہ کی بعض باتیں ہمیں سمجھ نہ بھی آتیں مگر ان کا آہنگ و انداز اور درد دل ہمارے جذبوں کا رنگ ضرور گہرا کردیتے۔ ۔۔+2/13
ہمیں سوز وسازرومی اورپیچ و تاب رازی توحاصل نہ ہو سکا۔مگراس کشمکش میں راتیں گزارنےوالےکی تڑپ ہمارےدلوں کوضرورگرمادیتی۔
یہی زمانہ تھا کہ جب افکار مودودی سےبھی ہماراتعارف ہوا،تحریک پاکستان کےمعماروں کےبارے میں بھی کچھ پڑھا،حسن البنا اور سید قطب کے بارے میں بھی کچھ آگاہی ہوئی، +3/13
تحریک خلافت اور تحریک مجاہدین کے بارے میں سنا، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کے جوش و جذبے سے بھی متاثر ہوئے، حضرات سرسید، ندوی، تھانوی اور نعمانی صاحبان کی کچھ تحریریں دیکھنے کا بھی موقع ملا،لیکن اقبال اور مودودی نے ہمیں جتنا متاثر کیا اتنا کوئی اور نہ کرسکا۔۔+4/13
اور ہم غلبہ اسلام کے لیے قران و سنت کی دعوت لے کر دنیا پر چھا جانے کے لئے تڑپنے لگے۔ ایک عظیم عالم گیر امت مسلمہ کا حصہ ہونے کا تصور سحر انگیز تھا۔ یہ ایک ایسی شناخت تھی، ایک ایسی عظیم طاقت تھی جس نے ہمارے قد کو کئی گنا بڑا کردیا۔ ہمارے سر کو فخر سے بلند کردیا، ۔۔۔+5/13
ہمیں احساس خودی سے آشنا کردیا اور ہمیں اپنی منزل آسمانوں میں نظر آنے لگی۔اب کسی مسلمان کو کانٹا کابل میں چبھتایا فلسطین میں، کشمیر میں یا چیچنیا میں، ہماری بےتابی دیکھنے لائق ہوتی۔
1991ء کی بات ہے، ہم اقبال کے شیدائی ابھی بارہویں جماعت کے طالب علم تھے کہ ہمارے کالج میں ۔۔۔+6/13
جمعیت کے ناظم بھائی، جو خود اقبال کے شاہین کی مثال تھے اور کئی بار گم راہ جماعتوں کے بدمعاشوں کو مٹی چٹا چکے تھے،
نے ہمیں قائل کرلیا کہ مسلمانان عالم پر طاغوتی قوتوں کے مظالم کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں عسکری تربیت حاصل کر لینا چاہیے۔
تربیت دینے کا یہ فریضہ مجاہدین۔۔۔+7/13
اسلام پاکستان کی سرحدسےمتصل افغانستان کےپہاڑوں میں کیمپ لگاکر بخوبی سرانجام دےرہےتھے۔میرےوالد صاحب پیپلز پارٹی کےکارکن تھے اگرچہ انھوں نےاسلامی جمعیت طلبہ کےساتھ ہماری وابستگی پرکبھی اعتراض نہیں کیاتھا،لیکن ہمیں یقین تھاکہ وہ ہمیں اس مقصدکےلیےجانے کی کبھی اجازت نہیں دیں گے۔+8/13
چنانچہ ہم نے کاغان ناران ایک ٹرپ کے ساتھ جانے کے لیے اجازت لی
اور نوجوانوں کے ایک گروپ کے ساتھ
جمعیت کے ناظم کی سربراہی میں، جو ہمیں پشاور کچھ اور قائدین کے حوالے کر کے واپس چلے گئے تھے، میران شاہ سے ہوتے ہوئے افغانستان کے پہاڑوں میں قائم البدر ۳ کے کیمپ میں پندرہ دن کی۔۔+9/13
عسکری تربیت حاصل کرنےکےلیے پہنچ گئے۔ہم جذبہ ایمانی اور شوق شہادت سےتو سرشارتھے لیکن شہادت کےلیےمرنے،مارنے اور خون بہانے جیسی شرطوں پر ہم نے کچھ زیادہ غور نہ کیا تھا۔
نجانے ہماری خوش قسمتی تھی یا بدقسمتی کہ اپنی کم زور جسمانی ساخت اور دھان پان سی نازک مزاج شخصیت کے باعث، ۔+10/13
ہم وہاں صبح چار میل کی دوڑ، اسلحے کی تربیت اور دیگر ورزشوں کی سختیاں اور روزانہ ابلے ہوئے چاولوں پر لال لوبیے کی خوراک چند دن سے زیادہ برداشت نہ کرسکےاور بیماری کے باعث ہمیں ایک خیمے میں قائم ڈسپنسری میں داخل ہونا پڑگیا۔ اوپر سے ستم یہ ہوا کہ وہاں موجود ناتجربہ کارڈاکٹر یا+11/13
ڈسپنسر نے ہمیں ایک غلط ڈرپ لگا دی۔
نتیجہ یہ کہ ہمارے جذبہ شہادت کو
ہمارے بازو سے باندھ کر، جو پھول کر ہمارے باقی بدن کے برابر ہوچکا تھا، رسد لانے والی گاڑی پر واپس پشاور پہنچا دیا گیا۔ جہاں سے ہم خجالت کے مارے گرتے پڑتے کسی نہ کسی طرح واپس اپنے گھر پہنچ گئے۔ ۔۔+12/13
ہمارے خدشات کے برعکس اور شائد ہماری حالت دیکھتے ہوئے ہمارے بزرگوں نے ہم سے ایک لفظ کی بھی باز پرس نہ کی اور چپ چاپ خدا کا شکر بجا لاتے ہماری صحت کی بحالی کے اقدامات کرنے میں جت گئے۔13/13

رشاد بخاری کے بلاگ "کیا علامہ اقبال اور سید مودودی آج بھی اہم ہیں؟" سے اقتباس
You can follow @zahida_rahim.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled: