#باچا خان کے بارے میں آج تک جتنا پڑھا اور سنا ہے وہ سب آج اپنے الفاظ میں لکھتی ہوں کہ میری اپنی رائے کیا ہے باچا خان کے متعلق۔
پہلی بات جو سب سے زیادہ سننے کی ملتی ہے وہ ہے عدم تشدد۔۔ یہ بات ہم اتنی سن چکے ہیں جیسے باچاخان کی تحریک کا مقصد ہی عدم تشدد تھا جسے آجکل کچھ لوگ
پشتونوں کی بدھالی کی وجہ بھی بتاتے ہیں لیکن ایسا نہی ہے۔۔ باچا خان کی پوری تحریک کس نچوڑ صرف عدم تشدد نکالنا سراسر نا انصافی ہے۔۔ اصل میں باچا خان ظلم اور غلامی کے خلاف مذاہمت اور شدید مذاہمت کا نام ہے۔۔ عدم تشدد صرف اس مزاہمتی تحریک کا قانون تھا۔۔ اور دنیا کو یہ دکھانا تھا کہ
جنگ اور گلامی سے بغاوت صرف زور آزمائی اور خون بہانے کا نام نہی بلکہ ایک موثر مزاہمت عدم تشدد کے راستے بھی ہو سکتی ہے۔۔
یہی پشتون جو دنیا میں جہالت سے مشہور تھا وہی دنیا کی تاریخ میں پہلی بار خون خرابے کے بغیر مذاہمت کو متعارف کرواتا ہے۔۔ جس سے طاقتور اور کمزور کا فرق ختم ہو
جاتا ہے صرف حق اور باطل کی جنگ ہوتی ہے۔۔ باچا خان کے مطابق طاقت کی لڑائی میں جیت طاقت کی ہوتی ہے لیکن یہ بات جانوروں اور انسانوں میں فرق بھی ختم کرتی ہے۔۔ انسان اگر اشرف المخلوقات ہیں تو انھے جانوروں سے ہٹ کر تنازعات کے حل نکالنے ہونگے۔۔ بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ باچاخان غلامی
اور ظلم کے خلاف شدید مذاہمت کا نام ہے عدم تشدد صرف انکے مزاہمت کا قانون ہے۔۔
باچاخان نے اپنے تحریک کے ذریعے پشتونوں اور ساری دنیا کو عدم تشدد جیسی مذاہمت سکھائی بلکہ تحریک میں مذاہمت کے ساتھ ساتھ پشتونوں کی اخلاقی تربیت بھی کی۔ تحریک میں کفایت شعاری کا قانون بہت سخت تھا۔۔
سادہ کھانا، کم کھانا، سادہ پہننا، چیزوں کا بے دریغ استعمال ترک کرنا۔۔ اور دوسرا اپنے سب کام خود کرنا۔۔ باچاخان اپنے برتن دھونے تک اپنے کام خود کرتے تھے۔۔ قوم کو کفایت شعاری کی سخت تلقین کرتے۔۔
دوسرا اپنے ملک کے پراڈکٹس استعمال کرنے پرزور دیتے تھے۔۔ جو تصور دوسری قوموں میں آج تک
پیدا نہی ہوئے وہ تصور باچاخان نے ایک صدی پہلے پشتونوں میں متعارف کروائی۔۔
ڈیسیپلن کی ایسی تربیت دی کہ گاندھی جی کے ساتھ آنے والے لکھتے ہیں کہ ہم دھلی سے پشاور تک آئے ہر سٹیشن پر ہماری مہمان نوازی کارکنان کے نعرے بازئ سے ہوئی ہر بندے کی کوشش ہوتی کہ ہمارے کان میں انقلاب
کا نعرہ لگائے۔۔ لیکن پشاور سٹیشن پے اتنی خاموشی تھی کہ ہم سمجھے کوئی استقبال کیلئے آیا ہی نہی۔۔لیکن باہر دیکھا تو سینکڑوں لوگ استقبال کیلئے قطاروں میں خاموش کھڑے تھے۔۔
اس سے اندازہ لگائیں کہ سو سال پہلے باچاخان نے اس قوم کو جو بنانا چاہا تھا وہ ہم آئندہ 2سو سالوں میں بھی نہی سوچ
سکتے لیکن باچاخان پر تنقید ضرور کرسکتے ہیں۔۔
سب سے اہم بات قوم کو جدید تعلیم کی طرف لیجانا ہے۔۔ باچاخان نے عدم تشدد کے قانون پر مذاہمتی تحریک کے دوران پشتونوں کو ڈیسیپلن، کفایت شعاری، اپنے پراڈکٹس کی قدر، اور اپنے کام خود کرنے اور پرائے جنگوں سے دور رہنے کی تلقین کی بلکہ پورے
تحریک میں لڑکوں اور لڑکیوں کے یکساں تعلیم پر زور دیا اور اس پر علمی اقدامات بھی کئے۔۔ سب پشتونوں سے چندے اکٹے کرکے سینکڑوں سکول قائم کئے اور لڑکیوں کے تعلیم پر خصوصی توجہ دینے کی کوشش کی۔۔
جب باچا خان نے اپنے آزاد سکول کھولے تو سب سے پہلے اپنے بیٹوں غنی خان آور ولی خان کو اس سکول
میں عام لوگوں کے ساتھ داخل کرادیا۔
عورتوں کے تعلیم کے بارے میں باچا خان بڑے فکرمند تھے اور سمجھتے تھے کہ اگر عورتوں کو تعلیم سے دور رکھا گیا تو قوم کبھی بھی ترقی نہیں کر پائے گی اسی کئے اپنی بیٹی کو سکول میں داخل کرایا تاکہ دوسرے پختون بھی اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلوائے اور اسی بنا
پر باچا خان سے سسرال نے اُن کا سوشل بائیکاٹ کردیا.
باچا خان مادری زبان کو بڑی اہمیت دیتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ جس قوم نے اپنی زبان ترک کردی وہ صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہے اسی لئے پشتو زبان میں پختون رسالے کا اجراء کیا جس نے بڑے بڑے نامور ادیب اور شعرا پیدا کئے جس میں عورتوں کی بھی
ایک بڑی تعداد تھی۔
اس کے علاوہ باچا خان نے پختونوں میں ذات پات کی تقسیم کو مکمل ختم کرنے کی بہت کوششیں کیں تھیں۔
سیاسی افیلئشن سے ہٹ کر تصور کریں سو سال پہلے ایک ایسا عظیم لیڈر اس قوم کو ملا تھا لیکن ہم بدبخت ہیں کہ مراکش سے لیکر بنگال تک ہر خونخوار کو ہم اپنا ھیرو مانتے ہیں
لیکن اپنے مٹی کے ایسے ھیرے کے بارے میں ہم پڑھنے کی زحمت بھی نہی کرتے جس نے سو سال پہلے پشتون قوم کو وہ تصورات دیئے جو اگر ہم اپناتے تو آج مغربی اقوام کے ٹکڑوں پے پلنے کے بجائے ان کے مقابلے کے ہوتے۔۔
ګلالو ..........
You can follow @IamGulalo.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled: