سندھ کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتاہے کہ سندھ انسانی تہذیب کے قدیم مراکز میں سے ایک ہےسندھ کی یہی تہذیب ایرانی، یونانی، عرب، افغانی اور دیگر حملہ آوروں کو یہاں لےآتی رہی اور اسی وجہ سے سندھ کی تہزیب میں ہر نسل کی ملی جلی نسل اور تہزیب پائی جاتی ہے۔۔+1/17
تاريخ الهند والسند(چچ نامہ)تاریخ سندھ پر ایک مشہور کتاب ہے، اس کتاب میں الور کے راجا چچ اور اس کے جانشینوں کے حالات اور محمد بن قاسم کی فتح سندھ کے واقعات تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ یہ عربوں کی طرف سے سندھ کو فتح کرنے کے موضوع پر لکھی گئی سب سے پرانی تاریخی کتاب ہے۔.. +2/17
اس کے مطابق حجاج بن یوسف نے ثقفی خاندان کے  قاسم نامی شخص کو بصرہ کا گورنر بنایا، محمد بن قاسم کی ولادت وہیں ہوئی، محمد کی عمر پانچ سال کی تھی کہ باپ کا انتقال ہوگیا۔ حکمران ولید بن عبدالملک کے دور میں جب حجاج ہی عراق کا گورنر تھا اور محمد بن قاسم کی عمر پندرہ سال تھی،۔+3/17
تو 708ءمیں محمد بن قاسم کو ایران میں کردوں کے خلاف سپہ سالار بنایا گیا۔ سترہ سال کی عمر میں محمد بن قاسم کو شیراز کی گورنری سونپی گئی۔ اسی زمانے میں عطیہ ابن سعد عوفی (معروف راوی اور حدیث کے استاد) بھی عراق سے بھاگ کر شیراز پہنچے۔جہاں محمد بن قاسم نےعطیہ کوگرفتار کر لیا۔۔4/17
یہ وہ زمانہ تھا کہ جب خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کو گالیاں دینے کا رواج جاری تھا۔چنانچہ تہذیب التہذیب میں حافظ ابن حجر عسقلانی، طبقات الکبریٰ میں ابن سعد اور تاریخ طبری میں ابن جریر طبری نے لکھا ہے کہ حجاج ابن یوسف نے محمد بن قاسم کو لکھا کہ حضرت عطیہ بن سعد عوفی کو طلب کرکے۔+5/17
ان سے حضرت علی پر سب و شتم کرنے کا مطالبہ کرے اور اگر وہ ایسا کرنے سے انکار کر دیں تو ان کو چار سو کوڑے لگا کر داڑھی مونڈ دے۔ محمد بن قاسم نے ان کو بلایا اور مطالبہ کیا کہ حضرت علی پر سب و شتم کریں۔ انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تو محمد بن قاسم نے ان کی داڑھی منڈوا کر۔+6/17
چارسوکوڑےلگوائے۔اس واقعےکےبعد وہ خراسان چلےگئے۔
اسی زمانےمیں عمان میں معاویہ بن حارث علافی اورانکےبھائی محمدبن حارث علافی نےامویوں کےخلاف علم بغاوت بلندکیاجس کےنتیجے میں عمان کاگورنرماراگیا۔
چچ نامہ کےمطابق محمدعلافی عمان سےبھاگ کراپنےپانچ سوساتھیوں کے ہمراہ مکران میں پہنچا+7/17
جہاں راجاداہرکی حکومت تھی۔
راجاداہرراجاچچ کےسب سےچھوٹے بیٹےاور کشمیری برہمن خاندان کے آخری حکمران تھے،انہوں نےان لوگوں کوپناہ دی۔یہ وہ زمانہ تھاکہ اموی سلطنت کےمظالم سےبھاگنے والےبہت سےلوگ خصوصاًخاندان رسول کے عزیزواقارب اورچاہنےوالےاس خطے میں روپوشی کی زندگی گزاررہےتھے۔+8/17
اس وقت موجودہ افغانستان اور ایران اموی سلطنت میں شامل تھے، آج کا پاکستان اور ہندوستان اموی سلطنت کے ہمسائے تھے۔ اموی پہلے ہی وسعت سلطنت کیلئے کسی بہانے کی تلاش میں تھے۔چنانچہ حجاج نے 93 ھ میں محمد بن قاسم کو ایران سے ہندوستان پر چڑھائی کرنے کا حکم دے دیا۔..+9/17
ہمارےتعلیمی نصاب میں اورنسیم حجازی جیسےافسانہ نگار مختلف اقسام کےافسانےگھڑتےہیں۔مگر مختلف تاریخ کی کتابوں سے یہ بات ثابت ہوچکی ہےکہ عربوں کاسندھ پرحملے کااصل مقصداس خوشحال خطے سے فائدہ اٹھانا تھا۔سیلون سے آنے والے مسافروں کادیبل کے بحری قزاقوں کے ہاتھوں اغواکاتوبہانہ تھا۔+10/17
حقیقت یہ ہےبحری قزاقی کوئی اس دورمیں نئی بات نہیں تھی۔نہ صرف سندھ کی آبی سرحدوں پربلکہ جزیرۃ العرب کےتمام ساحلوں پربحری قزاقی روز مرہ کا معمول تھی۔چناچہ بڑے جہازوں پرزیادہ سے زیادہ ملازم یا ملاح رکھے جاتے تھے جو ہر قسم کے قزاقی حالات سے نپٹنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔+11/17
محمد بن قاسم سے پہلے بھی بارہا سندھ پرحملے ہوتے رہے تھے، کبھی کسی بناپر تو کبھی کسی سبب۔ اس سونے کی چڑیا کو قبضے میں کرنے کے لئے عربوں نے بارہا جتن کئے مثال کے طور پر عربوں نے سندھ پر سب سے پہلا حملہ ۱۵ ہجری میں کیاتھا، دوسرا ۲۳ ہجری، تیسراپھر۲۳ ہجری، چوتھا۔۔۔۔+12/17
۳۸ ہجری (حضرت علی کرم اللہ کے دور میں)، پانچواں ۳۹ ہجری میں، چھٹا ۴۲ ہجری میں، ساتواں بھی۴۲ ہجری میں، آٹھواں ۴۳ہجری میں، نواں ۴۴ ہجری میں، دسواں ۴۵ ہجری میں، گیارھواں ۵۸ ہجری میں، بارھواں ۵۹ ہجری میں، تیرھواں بھی ۵۹ ہجری میں، چودھواں ۲۴۰ ہجری میں ، پندرھواں ۶۳۲ع اور ..+13/17
۷۱۲ ع میں ہونے والاسولھواں آخری حملہ تھا جس کا سالار محمد بن قاسم تھا۔جب محمد بن قاسم نے چھ ہزار شامی اور چھ ہزار عراقی فوج کا لشکر لے کر دیبل کا گھیراؤ کیا ۔ ان کے پاس ایک طاقتور منجنیق عروسک تھی جس سے قلعے کی دیواریں توڑ کرعربی فوج اندر گھس گئی اور ..+14/17
دیبلی باشندوں کاقتل عام کرکےہنستا بستاشہرتاراج کیایہاں تک کہ انہوں نے دیبل میں پنڈتوں کابھی قتلِ عام کیا تھا۔یہاں سےہاتھ آنے والابےانتہا مالِ غنیمت جن میں زر و جواہر کے ساتھ سندھی مردوں اور عورتوں کو غلام اور لونڈیاں بناکراپنے آقاؤں کی خوشنودی کے لئے بصرہ بھیج دیا تھا۔+15/17
راجہ داہراورقاسم کامقابلہ اروڑ کے قلعےکےباہرہوا۔چچ نامہ کےمطابق داہر کے پاس مختلف آپشنز موجودتھے لیکن اس نےسرِعام جنگ کرنے اورغیرت مند مفتوح بننےکوترجیح دی۔ دس دن تک جنگ جاری رہی۔بے پناہ خون ریزی ہوئی۔داہر کاسرقلم کر دیاگیا۔بیٹیاں باپ کےکٹےسر کےساتھ دمشق روانہ کر دی گئیں۔+16/17
محمد بن قاسم مسلسل فتوحات کرتا ملتان جا پہنچا، جہاں اسے بھی اچانک واپس بلا لیا گیا۔ سلیمان بن عبدالملک نے حجاج سے اپنا انتقام لینے کے لیے دوسرے جرنیلوں کی طرح محمد بن قاسم کو بھی عبرتناک انجام سے دوچار کیا ۔ محمد بن قاسم نجات دہندہ تھا یا حملہ آور فیصلہ آپ خود کیجیے۔17/17
ماخذ ۔
حافظ ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، جلد ہفتم، صفحہ 226، شمارہ راوی 413
 ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، ج6، ص:305
 طبری، تاریخ الطبری، ج11، ص:641
You can follow @zahida_rahim.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled: