شوگر انکوائری کمیشن اور واجد ضیاء کی سربراہی
شوگر انکوائری رپورٹ میں درج فیکٹس اور فائنڈنگ کو پڑھیں تو آپ بے اختیار کہنے پہ مجبور ہوتے ہیں “WHAT”اور اگر آپ اسکی ریکمنڈیشنز کو پڑھیں تو آپ معاملہ آسانی سے سمجھ جاتے اور آپکا ری ایکشن ہو “او اچھا تو معاملہ یہ ہے” مکمل بیل آؤٹ پیکج
رپورٹ میں درج حقائق ایک مکمل چارج شیٹ ہیں جیسے کہ چینی کی سپورٹ پرائس گنے کی کاشت کی بجاۓ اسکی کرشنگ سیزن کے بالکل شروع میں اور سندھ میں کرشنگ سیزن کے بعد اضافہ۔ سپورٹ پرائس ہمیشہ کاشتکاروں کو گنے کی کاشت کی طرف راغب کر نے کیلیے متعین کی جاتی ہے تاکہ وہ گنا زیادہ کاشت کریں
لیکن اس رپورٹ کے مطابق شوگر ملز مالکان خود گنے کے مین پروڈیوسر ہیں اس سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ کاشت کی بجاۓ کرشنگ سیزن میں سپورٹ پرائس میں اضافہ دراصل شوگر ملز مالکان کو فائدہ پہنچانے کیلیے کیا گیا۔ دوسرا پہلو چینی کی قیمت میں اس وقت اضافہ کیا گیا جب اس میں اضافے کی وجہ نہیں تھی
رپورٹ کے مطابق صوبائی حکومتوں اور خاص طور پر Agriculture Policy Institute (API) کے مطابق سپورٹ پرائس کافی تھی لیکن اسکے باوجود اضافہ کیا گیا۔ دلچسپ چیز جو رپورٹ میں درج ہے وہ یہ کہ نا تو صوبائی حکومت اور نا ہی وفاقی حکومت کے پاس شوگر کی قیمت کو ویریفائی کرنے کا کوئی میکانزم ہے
رپورٹ میں شوگر مافیا کی طرف سے کہ وہ کیسے ریکوری پرائس کے ذریعے Price Manipulations کے مرتکب ہوۓ اور کیسے Off the Books سیل کر کے Tax Evasion کی اور کیسے ملکی خزانے کو نقصان پہنچایا ہائی لائٹ کیا گیا ہے
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ شوگر کی قیمتوں میں دسمبر دو ہزار اٹھارہ سے جون دو ہزار انیس کے درمیان تقریباً 12 روپے اضافہ ہوا لیکن اس حساب سے نا تو سیلز ٹیکس کولیکشنز میں اضافہ دیکھنے کو ملا اور نا کسی اور ٹیکس کی مد میں۔ یقیناً شوگر ملز مالکان کے ساتھ FBR بھی اسکا ذمہ دار ہے
رپورٹ میں ایکس مل اور ریٹیل پرائسز کے میکانزم کو بھی ہائی لائٹ کیا گیا اور بتایا گیا ہے کہ کیسے ملز مالکان دوہرا منافع چارج کر تے ہیں اور کیسے سیلز ٹیکس نہیں دیتے۔ مارکیٹ مینو پولیشنز ، سے لیکر زخیرہ اندازی اور پھر اپکسپورٹ اور سبسڈی معاملات سب درج ہیں
ان تمام حقائق جس پہ مزید کسی تحقیق کی ضرورت نا ہو فائنڈنک میں فورینزیک آڈٹ کا کہہ دیا گیا اور اپنی ریکمنڈیشنز جہاں اتنے بڑے سیکنڈل کے مرتکب لوگوں کے خلاف کاروائی کرنے کا کہا جاتا صرف اتنا ہی کہا گیا کہ شوگر ایڈوائزری بورڈ شوگر کی ایکسپورٹ پہ وقت پہ پابندی لگانے میں ناکام رہا ہے
حقیقت یہ ہے کہ شوگر ملز مالکان نے سبسڈی بھی لی۔ کرشنگ کے ٹائم پہ سپورٹ پرائس میں اضافہ کروا کر خود سے مہنگا گنا خرید کر پیسہ بنایا اور پھر گنے کی قیمت میں بے جا اضافہ کر کے پیسے بناۓ۔
اب آتے ہیں فرینزک آڈٹ رپورٹ کی طرف جو کہ آج 25 اپریل کو متوقع تھی اور اس میں ہفتے کی تاخیر کی گئی ہے۔وجہ وہی مکمل بیل آؤٹ پیکج ہے جو واجد ضیاء صاحب شوگر مافیا کو دینا چاہتے ہیں۔ حقائق یہ ہیں کہ ایک صاحب جو FIA میں ایڈیشنل ڈائریکٹر ہیں اور وفاقی وزیر کے خاندان کی مل کے آڈٹ پہ تھے
اور ان صاحب نے آڈٹ پروٹوکولز کے مطابق مل کا آڈٹ شروع کیا اور DG FIA کے COSکے ذریعے جو سٹیٹ بنک آف پاکستان۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان سے مطلوب تھیں اس کے لیےکچھ لیٹر لکھے۔ SBPکیلیے 9 اپریل کو خط لکھا گیا جس میں درج ذیل معلومات مانگی گئیں
خط کے مطابق 70 فیصد شوگر ایکسپورٹ افغانستان ہوئی جو کہ الارمنگ ہے کیونکہ روایتی طور پر افغانی چینی کی بجاۓ گڑ استعمال کرتے ہیں اور لوکل مارکیٹ میں چینی افغانستان کو برآمد کرنے کی بجاۓ sugar pilferage کے allegation سننے میں آ رہے ہیں ان کی تصدیق کیلے SBP جو انفارمیشن درکار ہیں
سٹیٹ بنک اور ایف بی آر سے درج ذیل معلومات منگوائی گئیں
پچھلے تین سالوں کی چینی درآمد کی تفصیل
ہر فیکٹری کی افغانستان کو چینی ایکسپورٹ کرنے کی تفصیل
امپورٹرز کے ناموں کی تفصیل
ڈرائیورز کے نام بشمول کلیر نگ ایجنٹ کے ناموں کی تفصیل
یہ معلومات ابھی تک نہیں ملی
اسکے بعد SECP سے بھی معلومات کے تبادلے کیلئے DG FIA کے COS کے زریعے ریکویسٹ کیلیے خط لکھا گیا۔ مقصد جعلی شوگر ایکسپورٹ کا پتا چلانا تھا لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان تینوں اداروں کی طرف سے متعلقہ آفیسر کو معلومات نہیں دی گئیں۔
اور انکے پوچھنے پر Whatsapp کے زریعے ناگواری کا اظہار بھی کیا گیا۔ جب پھر بھی وہ آفیسر ٹائم پہ رپورٹ مکمل کرنے پہ بضد تھے تو واجد ضیاء صاحب نے 21 اپریل کو اپنے دفتر بلایا جس میں دو دوسرے سینئر آفیسر بھی موجود تھے اور کہا کہ آپکے خلاف IB کی رپورٹ ہے
آپ متعلقہ شوگر مل کے عملے ساتھ مل کر انکو فورینزک آڈٹ میں مدد کر رہے ہیں اور آپ جان بوجھ کر رپورٹ میں تاخیر کر رہے ہیں۔جب متعلقہ آفیسرز نے واجد ضیاء سے ثبوت مانگے اور تاخیر پہ مؤقف دیا کہ آپکے آفس نے SBP, FBR اور SECP سے ابھی تک معلومات نہیں لے دیں جسکی وجہ سے رپورٹ مکمل نہیں دی
تو اس آفیسر کی کریڈیبلٹی کو متنازعہ بنانے کیلیے میڈیا کو اس کے بارے میں misleading معلومات فراہم کر دی گئیں۔ اور ساتھ ہی رپورٹ میں مزید تاخیر کردی گئی ۔ ان حقائق کی روشنی میں شوگر سکینڈل کا نتیجہ آپ خود اخذ کر لیں
You can follow @RaufAaeq.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled: