جسم فروشی کو قانونی جائز کیا جائے ۔

یہ جملہ پڑھ کے لوگوں کی غیرتِ ایمانی اور مملکتِ اسلامی تو جاگ جائے گی
لیکن میرے پاس وجوہات ہیں یہ بات زبان تک لانے کو ۔اِس حقیقت سے انکار تو اسلام کے چوکیدار بھی نا کر پائیں گے کہ قبحہ خانے و جسم فروشی ہر ملک اور ہر معاشرے کا
لازمی جز ہے اور پاکستان میں بھی یہ پیشہ ور مرد و زن موجود۔
جسم فروش مرد و زن کے ساتھ پاکستان میں بڑی تعداد میں خواجہ سرا بھی جسم فروشی کے پیشے سے وابستہ ہیں ۔
اور خواجہ سراؤں کے قتل اور اُن پہ تشدد ہماری کی خبریں اب معمول بن چکی ہیں ۔
شادی بیاہ پہ کال گرلز،ڈانسرز اور
خواجہ سراؤں کو ناچ کی آڑ میں دیگر مقاصد کے لیے مدعو کرنا بھی مملکت اسلامیہ کے ایمان افروز حیادار، عزت دار طبقے کا شیوہ بن چکا ہے۔
یہ خبریں بھی اکثر ہی منظرِ عام پہ رہتی ہیں کہ شادی کی تقریب میں فحش حرکات سے انکار پہ خاتون ڈانسر یا سنگر کا قتل کر دیا گیا۔
بڑے شہروں کے مخصوص علاقے، مقام عبایا پہنے کال گرل رات کے پہر کسی بھی شریف مرد کی گاڑی میں بیٹھی ہوئی "فاحشہ" کا خطاب کمانے نکلتی ہے۔
منٹو فرما گئے
جس نیت سے ایک طوائف برقعہ پہنتی ہے باکل اسی نیت سے کچھ مرد ڈارھی رکھ لیتے " 😏
یہ سب قانوناً جرم ہے مملکتِ
اسلامی میں لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اسی مملکت کے قانون ساز اسمبلی میں بیٹھے نمائندوں کے کمروں سے بھی حریم شاہ، صندل شاہ، مہوش حیات، نیلم منیر اور دیگر خواتین برآمد ہوتی ہیں ۔😊۔
معزز اراکین اسمبلی تو اپنے جیسی ناقص العقل عوام کے ووٹ سے دھو لیتی گناہ۔
لیکن بدنام ہوتی ہے تو ایک عورت۔
یاداشت کی کوتاہی ،نام یاد نہیں کہنے والے کا لیکن قول کچھ یوں ہے کہ اردو زبان میں ایک بدکردار عورت کے لیے تو "رنڈی"لفظ ہے لیکن کوٹھے پہ جانے والے مرد کے لیے اردو زبان بانجھ ہے۔
کیا خوب کہی ہے نا! 😏
خیر یہ موضوع تو کہ لکھنے لگو تو مرد و معاشرے کی سیاہ کاریوں اور دوہرے معیار سے کتابیں بھر جائیں۔
تو اصل مدعا تھا کہ جسم فروشی جائز کیوں ہونی چاہیئے
تو جی ایک وجہ تو یہ کہ جسم فروشی کے دھندے سے تو انکار نہیں تو کم از کم، اس پیشے سے منسلک لوگوں کی جان کا تحفظ تو ممکن ہو گا۔
رجسٹرڈ کال گرلز، کال بوائز اور خواجہ سرا
جن کے لیے قانون سازی کر کے اصول و ضوابط مروّجہ کیے جائیں ۔
سیف سیکس۔اردو میں کیا کہیں گے محفوظ جنسی عمل، جس سے جنسی بیماریوں جیسے ایڈز اور ہیپاٹائٹس سی اور دیگر مہلک جنسی امراض پھلنے کا امکان نا رہے۔
کنڈم کو لازمی قرار دینا۔جسمانی رطوبت سے لگنے والی بیماری کا ٹیسٹ ہونا گاہک و پیشہ ور دونوں کے لیے۔
ٹکیس نیٹ میں لانا پیشہ ور و گاہک کو۔
جی ایس ٹی جیسا کوئی ٹکیس گاہک کے لیے بھی۔
دوسری وجہ جو ہے وہ یہ کہ ہمارے دین میں تو ایک سے زائد شادی کا حق ہے مرد و زن کو ۔
عورت کو طلاق یا بیوگی کے بعد
لیکن ہماری مملکت اسلامی میں یہ والا حکم ہمیشہ عورت کو ہی برا لگتا۔ دوسرا نکاح اتنا معیوب فعل بنا دیا گیا ہے کہ اسکو طلاق کی دھمکی سمجھ لیتی ہے پہلے نکاح کی عورت۔
لیکن مرد حضرات کی گھر سے باہر منہ ماری جو ازلی ہے۔۔😏
سو نکاح کے بغیر معاشقے جائز ہیں
اور چل رہے ہوتے اس معاشرے میں لیکن دوسرا نکاح حرام ہے تو
پھر مرد کو اپنی جنسی تسکین کے لیے پیشہ ور عورت کے پاس جانے کا حق دیا جائے۔
پھر ہمارے ملک میں مخالف جنس تک رسائی مشکل جس کی وجہ سے پاگل ہو کے بچوں سے زیادتیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا۔
حالات یہ ہیں اس معاشرے کے کہ یہاں بازار میں پینٹ شرٹ پہنی عورت کو مرد وہاں تک گھورتے جہاں تک نظر آتی رہے۔۔
سوشل میڈیا پہ کوئی ایک لفظ۔ایک تصویر ان شریف ،عزت دار مردوں کی شہوت چمکا دیتی ہے
عورتوں کی پروفائلز اور تصاویر پہ پروانوں کا ہجوم اپنی جنسی تسکین کا سامان کر رہا ہوتا۔
آخر میں منٹو پہ چھوڑ رہی بات
سوسائٹی کے اصولوں کے مطابق مرد، مرد رہتا ہے، خواہ اسکی زندگی کے ہر ورق پہ گناہوں کی سیاہی لپی ہو، مگر وہ عورت جو صرف ایک بار جوانی کے بے پناہ جذبے کے زیرِ اثر ،یا کسی اور لالچ میں آ کے یا کسی مرد کی زبردستی کا شکار ہو کے، ایک لمحے کے لیے راستے سے بہک
جائے عورت نہیں رہتی۔نفرت و حقارت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے، معاشرے میں اس پہ وہ تمام دروازے بند کر دے جاتے ہیں جو ایک سیاہ پیشہ مرد کے لیے کھلے رہتے ۔

😊😊😊
You can follow @UrFragileEgo.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled: