کچھ دن قبل اپنی دو سال کی بیٹی کے بارے میں ایک ٹویٹ کیا کہ وہ صبح اٹھ کے مجھے نماز پڑھتا دیکھ کر رکوع و سجود کر رہی تھی۔ بظاہر harmless سا ٹویٹ تھا۔ اس کے replies بھی خوبصورت تھے۔
ایک شخص نے اس کے جواب میں بڑا جلا کٹا سا so what کہا۔
ایک شخص نے اس کے جواب میں بڑا جلا کٹا سا so what کہا۔
عموما میں ٹرولز کو نظر انداز کر دیتا ہوں مگر اس شخص کے ایک بیٹی کے بارے میں ٹویٹ پہ ایسے بےزاری سے بھرے رد عمل نے مجھے چونکا دیا اور میں نے پروفائل پہ جا کے کھوجنا شروع کیا کہ آخر اتنا زہر کس بات کا ہے۔۔۔
ڈی پی سے سوٹڈ بوٹڈ بظاہر خاصے پڑھے لکھے عمر کم سے کم ساٹھ سال۔۔۔ یہ ری ایکشن ایک ایسے شخص کی طرف سے خاصہ حیران کن تھا۔
مزید ٹویٹس کھوجے تو دیکھا کہ موصوف ایک سوشلسٹ ہیں ۔
مزید ٹویٹس کھوجے تو دیکھا کہ موصوف ایک سوشلسٹ ہیں ۔
اور بڑی درد مندی کے ساتھ سب کو سمجھا رہے ہیں کہ فیض میلہ کے باہر سوشلزم کے حق میں نعرے بازی کی مخالفت ہر گز نہ کریں۔ یہ ان بچوں کا حق ہے۔
بالکل ٹھیک ہو گیا۔ میری بیٹی کو نماز کا حق نہیں۔ البتہ سوشلسٹس کو اپنے خیالات کے پرچار کا حق ہے۔
بالکل ٹھیک ہو گیا۔ میری بیٹی کو نماز کا حق نہیں۔ البتہ سوشلسٹس کو اپنے خیالات کے پرچار کا حق ہے۔
یہاں یہ بحث نہیں کہ سوشلزم کے حق میں نعرے بازی جائز ہے یا نہیں۔ Ofcourse جائز ہے۔ سیاسی رائے رکھنا جائز ہے۔ اس پہ تنقید بھی جائز ہے۔ لیکن مسئلہ وہاں آتا ہے جہاں ایک خاص سیاسی رائے رکھنے والے اشخاص مذہب سے متعلق تمام علامتوں سے خائف نظر آتے ہیں۔
انہیں سوشلزم پہ نعرے بازی میں تو آزادیء اظہار کا حسن نظر آتا ہے لیکن کسی انسان کی اپنے مذہب سے وابستگی دیکھ کر جھرجھری سی آ جاتی ہے۔
چاہے آپ کی نازک طبیعت پہ کتنا ہی گراں گزرے لیکن پاکستان میں بسنے والے زیادہ تر افراد مذہب سے محبت رکھتے ہیں اور اگر آپ کے نظریات اس سے متصادم ہیں تو آپ کا نظریہ مقبولیت تو کیا قبولیت بھی حاصل نہیں کرے گا۔
مزید عرض ہے کہ اس تھریڈ کو پڑھ کے احباب مجھے یہ سمجھانے نہ آئیں کہ ایک شخص کے انفرادی فعل پہ آپ نے اتنے نتائج اخذ کر لیے۔۔۔۔ جناب دنیا دیکھی ہے۔ کچھ محسوس کیا ہے، سمجھا ہے تو لکھا ہے۔
اور ہاں۔۔۔۔ معاملہ ہرگز ہرگز سوشلزم کی حد تک نہیں۔ کوئی بھی نظریہ، سوچ، سسٹم اگر انسان کی اپنے خالق سے وابستگی پہ قدغن لگائے گا، اپنی موت آپ مر جائے گا۔
سیاست، معاشرت، انسانی حقوق۔۔۔۔ کسی بھی میدان میں اس بات کی کوئی گنجائش نہیں کہ انسان کو زبردستی دہریہ کرے۔
سیاست، معاشرت، انسانی حقوق۔۔۔۔ کسی بھی میدان میں اس بات کی کوئی گنجائش نہیں کہ انسان کو زبردستی دہریہ کرے۔
لکم دینکم ولی دین
تمہارے لیے تمہارا دین اور ہمارے لیے ہمارا۔
تمہارے لیے تمہارا دین اور ہمارے لیے ہمارا۔