نانگا پربت کے دامن میں رات سرد اور جوان تھی آسمان پر انگنت ستاروں اور ان کے بیچ سے گزرتے ملکی وے نہیں سحر طاری کر رکھا تھا ایسے میں ہم اپنے خیموں کے باہر آگ کے گرد گانےگاتے گرم نوڈلز کی چسکیاں لیتے تھے دو بج چکے تھے لیکن کوئی بھی سونا نہیں چاہتا تھا کہ ایسی رات پھر نہیں آنی تھی.
ہم صبح سات بجے چلاس سے چلےپھر رائے کوٹ سے اوپر سنگلاخ پہاڑوں کے ساتھ آسمان کو چھوتی ایک پگڈنڈی پر ٹنگی جیپ پر ڈیڑھ گھنٹے میں تتو گاؤں پہنچےتھے پورٹرز کو سامان تول کر دیا گیا اور چار بجے ٹریک شروع ہوا موسم کو مات دیتے رات 9 بجے ہم یہاں پہنچ گئے جہاں بہت تھکے ہوئے لیکن بہت خوش تھے.
ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی پورٹرز نے خیمے لگا دیئے تھے اور ایک چھوٹا سا خیمہ گاؤں وجود میں آ چکا تھا جہاں وقفے وقفے سے ایک ساتھ ٹریک شروع کرنے والے دوستوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا اور جب آخری ٹولی بارش میں بھیگتی خیمہ گاہ پہنچی تو باقاعدہ کھڑے ہو کر تالیوں سے استقبال کیا گیا.
بھوک سے جان نکل رہی تھی سب سے پہلے خیمہ گاہ کے پیچھے ہٹس میں ڈائیننگ ہال کا رخ کیا گیا جہاں آلو گوشت بالکل تیار تھا اس رات اندازہ نہیں کہ ہم لوگ کتنی روٹیاں کھا گئے چائے کے دور کے بعد میں اپنے خیمے میں جاکر لیٹ گیا لیکن تھوڑی ہی دیر بعد باہر آگ کے گرد بیٹھے دوستوں کو جوائن کر لیا
پورٹرز نے بتایاسامنے نانگا پربت ہے لیکن اندھیرے میں نظر نہیں آتا تھا.ساری رات عاشقوں نے محبوب کے پہلو میں بیٹھ کر خوب گیت گائے کہ صبح دیدار ہوگا قریب تین بجے سب آہستہ آہستہ اپنے اپنے خیموں میں سرکنے لگےصبح جب خیمے سے باہر آیا تو یہ منظرسامنے تھا محبوب پوری آب وتاب سےجلوہ گر تھا
آج محبوب کے لمس کو محسوس کرنے کے لیے نانگا پربت کے بیس کیمپ پہنچنا تھا لیکن میرے ساتھیوں نے بغاوت کر دی کہ ہم پہلے لاہور سے چوبیس گھنٹے بعد چلاس پہنچے پھر سارا دن مصیبتیں جھیلتے یہاں پہنچے ہیں اب ہم سے مزید پورے دن کی ٹریکنگ کرکے محبوب کے پاؤں نہیں چھوئےجاتے ہم سے یہ محبت نہ ہوگی
آدھے لوگ بیس کیمپ کے لیے نکل گئے کچھ لوگ اور میرا گروپ فیری میڈوز میں ہی پڑے رہے خیر میں نے اپنے ساتھیوں کو دو گھنٹے کے لیکچر اور طعنوں سمیت کافی حربوں کے بعد بیس کیمپ جانے کےلیے قائل کر لیا اور ہم بھی بیس کیمپ کے لیے نکل پڑےپھر کیا ہوا ہم بیس کیمپ پہنچے یا نہیں پھر کبھی سناؤں گا
آج کا ٹریک آسان تھا فیری میڈوز کے جنگل کے بیچ و بیچ بل کھاتا جنگلی پھولوں کی قربت میں پروان چڑھتا.
موسم خوشگوار تھا.
ٹریک جب جنگل میں درختوں کے سائے سے ملتا تو خنکی محسوس ہوتی لیکن جیسے ہی بے تاب ہو کر درختوں کے حصار سے چھوٹ کر روشنی سے بغلگیر ہوتا تو ہم بھی حدت محسوس کرتے.
ہم باتیں کرتے کبھی اتنی گہری کے ارد گرد سے نا آشنا ہو جاتے اور کبھی اتنی سطحی کے چھچورپن کی حدودں کو چھوتےآگےبڑھ رہےتھے.
پھر بیال کیمپ سے ذرا پہلے ایک میدان سا آیا جس میں ہری کچور گھاس پر نانگاپربت کی برفیں پگھلنے سےوجود میں آنےوالی چھوٹی بڑی ندیاں شریانوں کی طرح پھیلی ہوئی تھیں.
دائیں ہاتھ پر سر سبز قدرے کم بلند پہاڑ تھے بائیں ہاتھ پر بیال کیمپ کا گاؤں اور سامنے وہ محبوب بانہیں پھیلائے کھڑا تھا جس کی چاہ میں ہم نے لاہور سے رخت سفر باندھا تھا لوگ عید کی تیاریاں کر رہے تھے اور ہم نانگاپربت سے ملنے کی اور پھر ٹرو والے دن گھروں سے نکل پڑے اپنی عید کے لیے.
ہم چھوٹی بڑی ندیاں پھلانگتے چلتے جاتے تھے اب تو نانگا پربت بالکل سامنے تھا بالکل قریب ایسے جیسے سامنے سینما کی سکرین ہو لیکن ابھی بھی بیس کیمپ تین گھنٹے کی دوری پر تھا لیکن نانگاپربت کا سب سے اچھا ویو بیال کیمپ سے ہی ملتا ہے جیسے سینما سکرین تھوڑی دور سے ہی زیادہ اچھی لگتی ہے.
قریب ایک بجے ہم ویو پوائنٹ پہنچ گئے یہاں سے آپ نانگا پربت کا پورا 180 ڈگری ویو لےسکتے ہیں.
جیسے نیلےآسمان پر سفید بادل مختلف شکلیں بناتےہیں ایسے ہی نانگاپربت کے وجود پر ٹھہری برفیں مختلف نقش ابھارتی تھیں.
کسی کو قائد اعظم نظر آئے تو کسی کو لڑکا لڑکی ناچتے ہوئے دکھ رہےتھے اور مجھے
قائد والے گروپ سے اتفاق تھا. یہاں پہنچ کر ہم جہاں جہاں تھے وہاں وہاں ہری گھاس پر سیدھے لیٹ گئے میں نے کچھ دیر میں اٹھ کر اردگرد سے معلومات لیں کہ بیس کیمپ کتنی دور رہ گیا ہے. سب نے یہی مشورہ دیا کہ اب آپ لیٹ ہو گئے ہیں کسی طور بیس کیمپ پہنچ کر رات سے پہلے واپس نہیں آ سکتے.
مجھے مایوسی ہوئی کیونکہ میں ہر صورت بیس کیمپ پہنچنا چاہتا تھا خاص کر اتنا قریب پہنچ کر نہ جا پانا تکلیف دہ تھا.مجھے پتہ تھا کہ اب یہاں دوبارہ جلد آنا ناممکن ہو گا کیونکہ اور بہت سی جگہیں دیکھنا باقی ہیں اور زندگی صرف ایک ہے.میں آجتک چھ سال بعد بھی جب یہ ٹوئٹ رہا ہوں نہیں جا پایا.
خیر اپنے جنون کے لیے باقی لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنا مناسب نہیں تھا چنانچہ ہم واپس فیری میڈوز جانے کے لیے نکل پڑے راستے میں واپس بیال کیمپ پہنچ کر یادگار کھانا کھایا جس کا ذائقہ آج بھی میرے منہ اور تصور میرے ذہن میں نقش ہے. ایسا لنچ ود یو میں نے زندگی بھرنہیں کیا آجتک نہیں.
آپ صرف تصور کریں آپ نانگا پربت کے برفانی شہر کے عین سامنے بیٹھے ہیں اور اتنا قریب کہ اس کے وجود کے سارے خدوخال واضح ہو رہے ہیں آپ کے ساتھ اسکی برفوں سے پگھل کر بچھڑے پانی ندی بن کر بہتے ہیں اور آپ لکڑی کے ہٹ کے باہر بینچ پر بیٹھے یخ بستہ
ہواؤں میں گرم گرم دال چاول کھا رہے ہیں.
You can follow @TBajwa7.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled: